Wednesday, September 7, 2016

part 7 : islam aur jadeed science




اسلام اور جدید سائنس۔ پارٹ 7






اسلام اور سائنس میں عدم مغائرت۔ حصہ دوم
مغالطے کے اَسباب
اَب جبکہ ہم یہ حقیقت جان چکے ہیں کہ مذہب اور سائنس میں حقیقتاً کوئی تضاد موجود نہیں ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عام ذِہن میں اَیسی غلط فہمی کیوں پائی جاتی ہے اور اِس مغالطے کے اَسباب و عوامل کیا ہیں؟ اگرچہ اِس مغالطے کے اَسباب بہت سے ہیں لیکن بنیادی طور پر دو اہم اَسباب ایسے ہیں جن پر ہم سرِدست خاص طور پر توجہ دینا چاہیں گے۔ اُن میں سے ایک کا تعلق یورپ سے ہے اور دُوسرے کا عالمِ اِسلام سے۔
پہلا سبب۔ ۔ ۔ سولہویں صدی کے کلیسائی مظالم
عالمِ مغرب میں یہ مغالطہ اُس دَور میں پیدا ہوا جب برِاعظم یورپ عیسائی پادریوں کے تسلط میں جہالت کے اَٹاٹوپ اندھیرے میں ڈُوبا ہوا تھا۔ جاہل پادری عیسوی مذہب اور بائبل کی اصل اِسلامی تعلیمات کو مسخ کرکے مَن گھڑت عیسائیت کو فروغ دینے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ بائبل میں تحرِیف کی وجہ سے عقائد اَوہام میں اور عبادات رسوم میں بدل چکی تھیں اور معاشرہ کفر و شرک کی اندھی دلدل میں دھنستا ہی چلا جا رہا تھا۔ عیسائی مذہب کی بنیادی تعلیمات جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آج سے دو ہزار برس قبل دی تھیں اُنہیں بدل کر توحید کی جگہ تثلیث کا عقیدہ گھڑ لیا گیا، جو ایک اِنتہائی نامعقول تصوّر تھا اور اُسے آج خود عیسائی سکالر اور فلاسفر بھی ردّ کر رہے ہیں۔
اِس تحرِیف کے بعد سب سے بڑا فتنہ یہ پیدا ہوا کہ یونانی فلسفہ بائبل کا حصہ بن گیا، جسے دینِ عیسوی کے ماننے والے رفتہ رفتہ اپنا مستقل عقیدہ سمجھنے لگ گئے۔ حالانکہ وہ عقیدہ دراصل اُن کا نہ تھا بلکہ وہ محض یونانی فلسفے کے غلط تصوّرات تھے جو پادریوں کے ذریعے بائبل میں ڈال دیئے گئے تھے۔ اَب اِس تحریف کی وجہ سے بائبل میں یونانی فلسفے پر مبنی بے شمار سائنسی اَغلاط دَر آئیں۔
سولہویں صدی میں جب سائنس نے اُن غلط نظریات کو تحقیق کی روشنی میں جھٹلایا تو اُس وقت کے پادری یہ سمجھے کہ سائنسدان مذہب کو سائنس کے ذریعے ردّ کر رہے ہیں۔ چنانچہ وہ سائنسدانوں اور سائنسی علوم کے خلاف کفر کے فتوے دینے لگے۔ پہلے پہل نظامِ شمسی اور حرکتِ زمین کے بارے میں نئے سائنسی تصوّرات کا یہ نتیجہ نکلا کہ پادریوں نے تکفیر کے فتوے دیئے۔ گلیلیو نے جب 1609ء میں دُوربین اِیجاد کی اور اُس کی مدد سے نظامِ شمسی کی بابت اپنی تحقیقات دُنیا کے سامنے پیش کیں تو پادریوں نے اُسے اِس جرم کی پاداش میں سزائے قید سنائی اور وہ دورانِ قید ہی مر گیا۔ علیٰ ہذا القیاس متعدّد سائنسدانوں کو مذہب کے نام پر متعصب ظالمانہ قوانین کے شکنجے میں کستے ہوئے اُنہیں اپنے سائنسی نظریات واپس لینے پر مجبور کیا گیا، یہاں تک کہ اُن میں سے بعض کو زندہ آگ میں جلا دیا گیا۔ اِن تمام باتوں کے باوُجود سائنس کا کارواں مسلسل آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ اُس جاہلانہ معاشرے میں مذہب اور سائنس کے درمیان ایک گھمبیر جنگ چھڑ گئی۔ قانونِ قدرت کے مطابق حق (سائنس) کو بالآخر فتح نصیب ہوئی اور مسخ شدہ عیسائیت اپنا سر پیٹ کر رہ گئی۔
سائنس کے غلبے کا دَور آیا تو ردِعمل (reaction) کے طور پر سائنسدانوں نے بچے کھچے عیسائی مذہب اور مسخ شدہ بائبل کے خلاف بدلے کے طور پر ایک مہم چلائی، جس کے تحت ایک بڑی تِعداد میں کتابیں اور مضامین شائع کئے گئے۔ باقاعدہ علمی معرکے بپا ہوئے جن کے دَوران عیسائی پادریوں کی کونسل کے اِجلاس بھی ہوتے رہے، جن میں وہ عیسائیت کے دِفاع کی کوشش کرتے۔ چند سال پیشتر پوپ آف روم نے بعض اہلِ کلیسا کی طرف سے دیئے گئے آسمانی کائنات کے متعلق غیرسائنسی اور جاہلانہ فتاویٰ کو منسوخ کرنے کا اِعلان کیا ہے۔
عیسائیت کی شکست کے بعد اگرچہ یہ جنگ اَب ختم ہو چکی ہے تاہم جدید ذِہن اِسلام سمیت دِیگر تمام اَدیان کو بھی عیسائیت ہی کے پردے میں دیکھ رہا ہے اور اُنہیں بھی سائنسی تحقیقات پر پہرے بٹھانے والے اور باطل اَدیان سمجھ رہا ہے، حالانکہ حقیقت بالکل اِس کے برعکس ہے۔ مذہب اور سائنس میں مغایرت کی بحث کبھی بھی اِسلام کی بحث نہ تھی، یہ عیسائیت کے مسخ شدہ مذہب اور سائنس کی جنگ تھی۔ بدقسمتی سے ہمارے نوجوانوں نے سائنسی علوم کی اِبتداء اور پیش رفت کے بارے میں جاننے کے لئے عالمِ اِسلام کی زرّیں تاریخ کا مطالعہ کرنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ اُنہوں نے اندلس (Spain)، بغداد (Baghdad)، دِمشق (Damascus) اور نیشاپور کی اِسلامی سائنسی ترقی کا مطالعہ ہی نہیں کیا۔ آج بھی ہالینڈ کی لیڈن یونیورسٹی کی لائبریری کے ایشین سیکشن (Asian section) میں مسلم سائنسدانوں کی لکھی ہوئی صدیوں پرانی کتابیں موجود ہیں، جو ہمیں اِس حقیقت سے آگاہ کرتی ہیں کہ جب یورپ جہالت کی اتھاہ تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا اُس وقت دُنیائے اِسلام میں سائنسی تحقیقات کی بدولت علم و حکمت اور فکر و دانش کا سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ قرونِ وُسطیٰ میں اِسلامی سائنس کے عروج کے دَور میں سائنسی علوم پر بے شمار کتابیں لکھی گئیں، جن کی تِعداد لاکھوں میں ہے۔ چنانچہ مذہب اور سائنس کی یہ چپقلش اِسلام کی پیدا کردہ نہیں بلکہ یورپ کے دورِ جاہلیت (dark ages) کی پیدا وار ہے اور ہماری نوجوان نسل کی یہ بدقسمتی ہے کہ اُنہوں نے آج تک اِسلام کی تاریخ کو براہِ راست اپنے اِسلامی ذرائع سے نہیں پڑھا اور فقط مغربی ذرائعِ علم پر ہی اِکتفا کیا ہے۔ وہ اِس نکتے کو نہ سمجھ سکے کہ مذہب پر کی جانے والی تمام تنقیدیں اِسلام کے خلاف نہیں بلکہ عیسائیت کی مسخ شدہ مذہبی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ مغربی سائنسدانوں کے سامنے تو اِسلام کا سِرے سے کوئی تصوّر ہی نہیں تھا، لہٰذا کسی بھی سائنسدان کی طرف سے مذہب کے خلاف کی جانے والی تنقیدات کا ہدف اِسلام نہیں۔ ایسی تنقید نام نہاد عیسائی مذہب کے مبنی برجہالت و تعصب نظریات اورعقائد کے خلاف متصوّر ہونی چاہئے۔ اِسلام کا اُس سے کوئی سروکار نہیں۔
دُوسرا سبب۔ ۔ ۔ علمائے اِسلام کی سائنسی علوم میں عدم دِلچسپی
دُوسری اہم وجہ ہمارے علمائے کرام کے اَذہان میں پایا جانے والا ایک غلط تصوّر ہے کہ ہمارے ہاں مدارسِ اِسلامیہ کے نصاب ’درسِ نظامی‘ میں صدیوں سے جو فلسفہ پڑھایا جارہا ہے وہ اِسلام سے مآخوذ ہے۔ یہ تصوّر ہی حقیقت کے خلاف ہے، کیونکہ وہ فلسفہ بنیادی طور پر اِسلامی نہیں بلکہ یونانی فلسفہ ہے۔ ہمارے بعض کم نظر علماء وہ کتابیں پڑھ کر یہ تمیز بھول گئے ہیں کہ وہ فلسفہ یونانی ہے قرآنی نہیں۔ اِسی وجہ سے یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ بعض سائنسی تصورات ہمارے مذہب کے خلاف ہیں، حالانکہ حقیقت اِس سے یکسر مختلف ہے اور بدِیہی طور پر اِسلام اور سائنس میں کسی قسم کا کوئی تضاد اور ٹکراؤ نہیں بلکہ یہ تضاد غلط سوچ اور حقائق سے لاعلمی کی پیداوار ہے۔
یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ اِسلام اپنے ماننے والوں کو مذہب اور سائنس دونوں کا نور عطا کرتا ہے۔ اِس لئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اِسلام دُنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ دِین ہے، جو نہ صرف قدم قدم سائنسی علوم کے ساتھ چلتا نظر آتا ہے بلکہ تحقیق و جستجو کی راہوں میں سائنسی ذِہن کی ہر مشکل میں رہنمائی بھی کرتا ہے۔
واضح رہے کہ جو سائنسی تصوّرات اِس وقت بنی نوع اِنسان کے سامنے آچکے ہیں اور مستقبل کے تناظرات میں سائنس جس طرف بڑھ رہی ہے اُس کے پیش کردہ بنیادی نظریات قرآن و حدیث کے تصوّرات کی تائید و تصدیق کرتے چلے جا رہے ہیں۔ جوں جوں سائنس ترقی کر رہی ہے اِسلام کی حقانیت ثابت ہوتی جارہی ہے۔ بلکہ یہ کہنا بے جا اور مبالغہ آمیز نہ ہوگا کہ جدید سائنس کی ترقی سے مذہب کا نور نکھرتا جارہا ہے اور ایک وقت آئے گا کہ جب سائنس اپنی تحقیقات کے نکتۂ کمال کو پہنچے گی تو اللہ کے دین کا ہر اِیمانی تصوّر سائنس کے ذرِیعے صحیح ثابت ہوجائے گا۔ قرآنِ مجید اور سائنس کا تقابلی مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سائنس کے بے شمار نظریات قرآنی تصوّرات کو صد فی صد صحیح ثابت کرتے ہیں اور وہ دِن دُور نہیں جب سائنس کلی طور پر دینی نظریات کی تائید و توثیق کرنے لگے گی۔

part 6 : islam aur jadeed science


اسلام اور جدید سائنس۔ پارٹ 6



اسلا م اور سائنس میں عدم مغایرت
اِسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہونے کے ساتھ ساتھ دینِ فطرت بھی ہے جو اُن تمام اَحوال و تغیرات پر نظر رکھتا ہے جن کا تعلق اِنسان اور کائنات کے باطنی اور خارجی وُجود کے ظہور سے ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اِسلام نے یونانی فلسفے کے گرداب میں بھٹکنے والی اِنسانیت کو نورِ علم سے منوّر کرتے ہوئے جدید سائنس کی بنیادیں فراہم کیں۔ قرآنِ مجید کا بنیادی موضوع ’’اِنسان‘‘ ہے، جسے سینکڑوں بار اِس اَمر کی دعوت دی گئی ہے کہ وہ اپنے گرد و پیش وُقوع پذیر ہونے والے حالات و واقعات اور حوادثِ عالم سے باخبر رہنے کے لئے غور و فکر اور تدبر و تفکر سے کام لے اور اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ شعور اور قوتِ مُشاہدہ کو بروئے کار لائے تاکہ کائنات کے مخفی و سربستہ راز اُس پر آشکار ہوسکیں۔
قرآنِ مجید نے بندۂ مومن کی بنیادی صفات و شرائط کے ضمن میں جو اَوصاف ذِکر کئے ہیں اُن میں آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں تفکر (علمِ تخلیقیات (Cosmology) کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے۔
قرآ نِ حکیم نے آئیڈیل مسلمان کے اَوصاف بیان کرتے ہوئے اِرشاد فرمایا :
إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِّأُوْلِي الْأَلْبَابِO الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِO
(آل عمران، 3 : 190، 191)
بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردِش میں عقلِ سلیم والوں کیلئے (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیںo یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا ادب بن کر) بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروٹوں پر (بھی) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق (میں کارفرما اُس کی عظمت اور حسن کے جلوؤں) میں فکر کرتے رہتے ہیں۔ (پھر اُس کی معرفت سے لذّت آشنا ہوکر پکار اُٹھتے ہیں) اے ہمارے رب! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا۔ تو (سب کوتاہیوں اور مجبوریوں سے) پاک ہے، ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالےo
اِن آیاتِ طیبات میں بندۂ مومن کی جو شرائط پیش کی گئی ہیں اُن میں جہاں کھڑے، بیٹھے اور لیٹے ہوئے زِندگی کے ہر حال میں اپنے مولا کی یاد اور اُس کے حضور حاضری کے تصوّر کو جاگزیں کرنا مطلوب ہے، وہاں اِس برابر کی دُوسری شرط یہ رکھی گئی ہے کہ بندۂ مومن آسمانوں اور زمین کی خِلقت کے باب میں غور و فکر کرے اور یہ جاننے میں کوشاں ہو کہ اِس وُسعتِ اَفلاک کا نظام کن اُصول و ضوابط کے تحت کارفرما ہے اور پھر پلٹ کر اپنی بے وُقعتی کا اَندازہ کرے۔ جب وہ اِس وسیع و عریض کائنات میں اپنے مقام و مرتبہ کا تعین کرلے گا تو خودہی پکار اُٹھے گا : ’’اے میرے ربّ! تو ہی میرا مولا ہے اور تو بے عیب ہے۔ حق یہی ہے کہ اِس وُسعتِ کائنات کو تیری ہی قوت وُجود بخشے ہوئے ہے۔ اور تو نے یہ عالم بے تدبیر نہیں بنایا‘‘۔
مذکورہ بالا آیتِ کریمہ کے پہلے حصہ میں ’خالق‘ اور دُوسرے حصے میں ’خَلق‘ کی بات کی گئی ہے، یعنی پہلے حصے کا تعلق مذہب سے ہے اور دُوسرے کا براہِ راست سائنس اور خاص طور پر علمِ تخلیقیات (cosmology) سے ہے۔
مذہب اور سائنس میں تعلق
آج کا دَور سائنسی علوم کی معراج کا دَور ہے۔ سائنس کو بجا طور پر عصری علم (contemporary knowledge) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لہٰذا دَورِحاضر میں دِین کی صحیح اور نتیجہ خیز اِشاعت کا کام جدید سائنسی بنیادوں پر ہی بہتر طور پر سراَنجام دِیا جاسکتا ہے۔ بناء بریں اِس دَور میں اِس اَمر کی ضرورت گزشتہ صدیوں سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے کہ مُسلم معاشروں میں جدید سائنسی علوم کی تروِیج کو فروغ دیا جائے اور دِینی تعلیم کو سائنسی تعلیم سے مربوط کرتے ہوئے حقانیتِ اِسلام کا بول بالا کیا جائے۔ چنانچہ آج کے مسلمان طالبِ علم کے لئے مذہب اور سائنس کے باہمی تعلق کو قرآن و سنت کی روشنی میں سمجھنا از بس ضروری ہے۔
مذہب ’خالق‘ (Creator) سے بحث کرتا ہے اور سائنس اللہ تعالی کی پیدا کردہ ’خَلق‘ (creation) سے۔ دُوسرے لفظوں میں سائنس کا موضوع ’خَلق‘ اور مذہب کا موضوع ’خالق‘ ہے۔ یہ ایک قرینِ فہم و دانش حقیقت ہے کہ اگر مخلوق پر تدبروتفکر اور سوچ بچار مثبت اور درُست انداز میں کی جائے تو اُس مثبت تحقیق کے کمال کو پہنچنے پر لامحالہ اِنسان کو خالق کی معرفت نصیب ہوگی اور وہ بے اِختیار پکار اُٹھے گا :
رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً.
(آل عمران، 3 : 191)
اے ہمارے رب! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا۔
بندۂ مومن کو سائنسی علوم کی ترغیب کے ضمن میں اللہ ربّ العزت نے کلامِ مجید میں ایک اور مقام پر یوں اِرشاد فرمایا :
سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ.
(حم السجده، 41 : 53)
ہم عنقریب اُنہیں کائنات میں اور اُن کے اپنے (وُجود کے) اندر اپنی نشانیاں دِکھائیں گے، یہاں تک کہ وہ جان لیں گے کہ وُہی حق ہے۔
اِس آیتِ کریمہ میں باری تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ ہم اِنسان کو اُس کے وُجود کے اندر موجود داخلی نشانیاں (internal signs) بھی دِکھا دیں گے اور کائنات میں جابجا بکھری خارجی نشانیاں (external signs) بھی دِکھا دیں گے، جنہیں دیکھ لینے کے بعد بندہ خود بخود بے تاب ہوکر پکار اُٹھے گا کہ حق صرف اللہ ہی ہے۔
دَورِحاضر کا المیہ
قرآنِ مجید میں کم و بیش ہر جگہ مذہب اور سائنس کا اِکٹھا ذِکر ہے، مگر یہ ہمارے دَور کا اَلمیہ ہے کہ مذہب اور سائنس دونوں کی سیادت و سربراہی ایک دُوسرے سے ناآشنا اَفراد کے ہاتھوں میں ہے۔ چنانچہ دونوں گروہ اپنے مدِّ مقابل دُوسرے علم سے دُوری کے باعث اُسے اپنا مخالف اور متضاد تصوّر کرنے لگے ہیں۔ جس سے عامۃُ الناس کم علمی اور کم فہمی کی وجہ سے مذہب اور سائنس میں تضاد اور تخالف (conflict & contradiction) سمجھنے لگتے ہیں، جبکہ حقیقت اِس کے بالکل برعکس ہے۔
مغربی تحقیقات اِس امر کا مسلّمہ طور پر اِقرار کرچکی ہیں کہ جدید سائنس کی تمامتر ترقی کا اِنحصار قرونِ وُسطیٰ کے مسلمان سائنسدانوں کی فراہم کردہ بنیادوں پر ہے۔ مسلمان سائنسدانوں کو سائنسی نہج پر کام کی ترغیب قرآن و سنت کی اُن تعلیمات نے دی تھی جن میں سے کچھ کا تذکرہ گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے۔ اِسی منشائے ربانی کی تکمیل میں مسلم سائنسدانوں نے ہر شعبۂ علم کو ترقی دی اور آج اَغیار کے ہاتھوں وہ علوم اپنے نکتۂ کمال کو پہنچ چکے ہیں۔ شومئ قسمت کہ جن سائنسی علوم و فنون کی تشکیل اور اُن کے فروغ کا حکم قرآن و حدیث میں جا بجا موجود ہے اور جن کی اِمامت کا فریضہ ایک ہزار برس تک خود بغداد، رے، دِمشق، اسکندریہ اور اندلس کے مسلمان سائنسدان سراَنجام دیتے چلے آئے ہیں، آج قرآن و سنت کے نام لیوا طبقِ ارضی پر بکھرے اَرب بھر مسلمانوں میں سے ایک بڑی تِعداد اُسے اِسلام سے جدا سمجھ کر اپنی ’تجدّد پسندی‘ کا ثبوت دیتے نہیں شرماتی۔ سائنسی علوم کا وہ پودا جسے ہمارے ہی اَجداد نے قرآنی علوم کی روشنی میں پروان چڑھایا تھا، آج اَغیار اُس کے پھل سے محظوظ ہو رہے ہیں اور ہم اپنی اصل تعلیمات سے رُوگرداں ہوکر دیارِ مغرب سے اُنہی علوم کی بھیک مانگ رہے ہیں۔
آج ایک طبقہ اگر اِسلام سے اِس حد تک رُوگرداں ہے تو دُوسرا نام نہاد ’مذہبی طبقہ‘ سائنسی علوم کو اَجنبی نظریات کی پیداوار قرار دے کر اُن کے حصول کی راہ میں سب سے بڑی رُکاوٹ بنا ہوا ہے۔ مذہبی و سائنسی علوم میں مغایرت کا یہ تصوّر قوم کو دو واضح حصوں میں تقسیم کر چکا ہے۔ نسلِ نو اپنے اَجداد کے سائنسی کارہائے نمایاں کی پیروِی کرنے یا کم از کم اُن پر فخر کرنے کی بجائے زوال و مسکنت کے باعث اپنے علمی، تاریخی اور سائنسی وِرثے سے اِس قدر لاتعلق ہوگئی ہے کہ خود اُنہی کو اِسلام اور سائنس میں عدم مغایرت پر قائل کرنے کی ضرورت پیش آ رہی ہے۔
مذہب اور سائنس میں عدمِ تضاد
سائنس اور اِسلام میں تضاد کیونکر ممکن ہے جبکہ اِسلام خود سائنس کی ترغیب دے رہا ہے! بنا بریں اِسلامی علوم کل ہیں اور سائنسی علوم محض اُن کا ایک جزو۔ جزو اور کل میں مغایرت (conflict) ناممکن ہے۔ مذہب اور سائنس پر اپنی اپنی سطح پر تحقیقات کرنے والے دُنیا بھر کے محققین کے لئے یہ ایک عالمگیر چیلنج ہے کہ مذہب اور سائنس میں کوئی تضاد نہیں۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مذہب اور سائنس میں تضاد ہے تو اُس کے ساتھ دو میں سے یقینا ایک بات ہوگی، ایک اِمکان تو یہ ہے کہ وہ مذہب کی صحیح سمجھ سے عاری ہو گا بصورتِ دیگر اُس نے سائنس کو صحیح طور پر نہیں سمجھا ہو گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جس نکتے پر اُسے تضاد نظر آرہا ہو مطالعہ میں کمی کے باعث وہ نکتہ اُس پر صحیح طور پر واضح نہ ہو سکا ہو۔ اگر کسی معاملے کو صحیح طور پر ہر پہلو سے جانچ پرکھ کر سمجھ لیا جائے تو بندہ از خود یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ مذہب اور سائنس میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ اِسلام کی رُو سے مذہب اور سائنس دونوں دینِ مبین کا حصہ ہیں۔
سائنس کا دائرۂ کار مُشاہداتی اور تجرباتی علوم پر منحصر ہے جبکہ مذہب اَخلاقی و رُوحانی اور ما بعد الطبیعیاتی اُمور سے متعلق ہے۔ اَب ہم مذہب اور سائنس میں عدمِ تضاد کے حوالے سے تین اہم دلائل ذِکر کرتے ہیں :
1۔ بنیاد میں فرق
مذہب اور سائنس میں عدمِ تضاد کی بڑی اہم وجہ یہ ہے کہ دونوں کی بنیادیں ہی جدا جدا ہیں۔ دَرحقیقت سائنس کا موضوع ’علم‘ ہے جبکہ مذہب کا موضوع ’ایمان‘ ہے۔ علم ایک ظنّی شے ہے، اِسی بناء پر اُس میں غلطی کا اِمکان پایا جاتا ہے، بلکہ سائنس کی تمام پیش رفت ہی اِقدام و خطاء (trial & error) کی طوِیل جِدّوجُہد سے عبارت ہے۔ جبکہ دُوسری طرف اِیمان کی بنیاد ظن کی بجائے یقین پر ہے، اِس لئے اُس میں خطا کا کوئی اِمکان موجود نہیں۔
اِیمان کے ضمن میں سورۂ بقرہ میں اِرشادِ ربانی ہے :
الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ.
(البقره، 2 : 3)
جو غیب پر اِیمان لاتے ہیں۔
گویا اِیمان جو کہ مذہب کی بنیاد ہے، مُشاہدے اور تجربے کی بناء پر نہیں بلکہ وہ بغیر مُشاہدہ کے نصیب ہوتا ہے۔ اِیمان ہے ہی اُن حقائق کو قبول کرنے کا نام جو مُشاہدے میں نہیں آتے اور پردۂ غیب میں رہتے ہیں۔ وہ ہمیں اپنے خودساختہ ذرائعِ علم سے معلوم نہیں ہوسکتے بلکہ اُنہیں مشاہدے اور تجربے کے بغیر محض اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتانے سے مانا جاتا ہے، مذہب کی بنیاد اِن حقائق پر ہے۔ اِس کے مقابلے میں جو چیزیں ہمیں نظرآرہی ہیں، جن کے بارے میں حقائق اور مُشاہدات آئے دِن ہمارے تجربے میں آتے رہتے ہیں، اُن حقائق کا علم سائنس کہلاتا ہے۔ چنانچہ سائنس اِنسانی اِستعداد سے تشکیل پانے والا علم (human acquired wisdom) ہے، جبکہ مذہب خدا کی طرف سے عطاکردہ علم (God-gifted wisdom) ہے۔ اِسی لئے سائنس کا سارا علم اِمکانات پر مبنی ہے، جبکہ مذہب میں کوئی اِمکانات نہیں بلکہ وہ سراسر قطعیات پر مبنی ہے۔ مذہب کے تمام حقائق وُثوق اور حتمیت (certainty & finality) پر مبنی ہیں، یعنی مذہب کی ہر بات حتمی اور اَمرِ واجب ہے، جبکہ سائنس کی بنیاد اور نکتۂ آغاز ہی مفروضوں (hypothesis) پر ہے۔ اِسی لئے سائنس میں درجۂ اِمکان (degree of probability) بہت زیادہ ہوتا ہے۔ مفروضہ، مشاہدہ اور تجربہ کے مختلف مراحل میں سے گزر کر کوئی چیز قانون (law) بنتی ہے اور تب جاکر اُس کا علم ’حقیقت‘ کے زُمرے میں آتا ہے، سائنسی تحقیقات کی جملہ پیش رفت میں حقیقی صورتحال یہ ہے کہ جن حقائق کو ہم بارہا اپنی عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد سائنسی قوانین قرار دیتے ہیں اُن میں بھی اکثر ردّ و بدل ہوتا رہتا ہے۔ چنانچہ اِس بہت بڑے فرق کی بنیاد پر ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ مذہب اور سائنس میں ٹکراؤ کا اِمکان ہی خارِج اَز بحث ہے۔
2۔ دائرۂ کار میں فرق
مذہب اور سائنس میں کسی قسم کے تضاد کے نہ پائے جانے کا دُوسرا بڑا سبب دونوں کے دائرۂ کار کا مختلف ہونا ہے، جس کے باعث دونوں میں تصادُم اور ٹکراؤ کا کوئی اِمکان کبھی پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ اِس کی مثال یوں ہے جیسے ایک ہی سڑک پر چلنے والی دو کاریں آمنے سامنے آرہی ہوں تو وہ آپس میں ٹکراسکتی ہیں، اِسی طرح عین ممکن ہے کہ سٹیشن ماسٹر کی غلطی سے دو ریل گاڑیاں آپس میں ٹکرا جائیں لیکن یہ ممکن نہیں کہ کار اور ہوائی جہاز یا کار اور بحری جہاز آپس میں ٹکرا جائیں۔ اَیسا اِس لئے ممکن نہیں کہ دونوں کے سفر کے راستے الگ الگ ہیں۔ کار نے سڑک پر چلنا ہے، بحری جہاز نے سمندر میں اور ہوائی جہاز نے ہوا میں۔ جس طرح سڑک اور سمندر میں چلنے والی سواریاں کبھی آپس میں ٹکرا نہیں سکتیں اِسی طرح مذہب اور سائنس میں بھی کسی قسم کا ٹکراؤ ممکن نہیں، کیونکہ سائنس کا تعلق طبیعیاتی کائنات (physical world) سے ہے جبکہ مذہب کا تعلق مابعد الطبیعیات (meta physical world) سے ہے۔ اِس بات کو دُوسرے لفظوں میں یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ سائنس فطرت (nature) سے بحث کرتی ہے جبکہ مذہب کی بحث مافوق الفطرت (supernature) دُنیا سے ہے، لہٰذا اِن دونوں میں سکوپ کے اِختلاف کی بناء پر اِن میں کسی صورت بھی تضاد ممکن نہیں ہے۔
3۔ اِقدام و خطاء کا فرق
اِس ضمن میں تیسری دلیل بھی نہایت اہم ہے، اور وہ یہ کہ خالقِ کائنات نے اِس کائناتِ ہست و بُود میں کئی نظام بنائے ہیں، جو اپنے اپنے طور پر اپنی خصوصیات کے ساتھ روَاں دوَاں ہیں۔ مثلاً اِنسانی کائنات، حیوانی کائنات، جماداتی کائنات، نباتاتی کائنات، ماحولیاتی کائنات، فضائی کائنات اور آسمانی کائنات وغیرہ۔ اِن تمام نظاموں کے بارے میں ممکنُ الحصول حقائق جمع کرنا سائنس کا مطمحِ نظر ہے۔ دُوسری طرف مذہب یہ بتاتا ہے کہ یہ ساری اشیاء اﷲ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں۔ چنانچہ سائنس کی یہ ذِمہ داری ہے کہ اللہ ربّ العزت کے پیداکردہ عوالم اور اُن کے اندر جاری و ساری عوامل (functions) کا بنظرِ غائر مطالعہ کرے اور کائنات میں پوشیدہ مختلف سائنسی حقائق کو بنی نوع اِنسان کی فلاح کے لئے سامنے لائے۔
اللہ ربّ العزت کی تخلیق کردہ اِس کائنات میں غوروفکر کے دَوران ایک سائنسدان کو بارہا اِقدام و خطاء (trial & error) کی حالت سے گزرنا پڑتا ہے۔ بار ہا ایسا ہوتا ہے کہ ایک دفعہ کی تحقیق سے کسی چیز کو سائنسی اِصطلاح میں ’حقیقت‘ کا نام دے دِیا جاتا ہے مگر مزید تحقیق سے پہلی تحقیق میں واقع خطا ظاہر ہونے پر اُسے ردّ کر تے ہوئے نئی تحقیق کو ایک وقت تک کیلئے حتمی قرار دے دیا جاتا ہے۔ سائنسی طریقِ کار میں اگرچہ ایک ’مفروضے‘ کو مسلّمہ ’نظرئیے‘ تک کا درجہ دے دیا جاتا ہے، تاہم سائنسی طریقِ تحقیق میں کسی نظرئیے کو بھی ہمیشہ کیلئے حقیقت کی حتمی شکل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ سائنس کی دُنیا میں کوئی نظریہ جامد (unchangeable) اور مطلق (absolute) نہیں ہوتا، ممکنہ تبدیلیوں کا اِمکان بہرحال موجود رہتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ نئے تجربات کی روشنی میں صدیوں سے مسلّمہ کسی نظرئیے کو مکمل طور پر مستردّ کردیا جائے۔
مذہب اِقدام و خطاء سے مکمل طور پر آزاد ہے کیونکہ اُس کا تعلق اللہ ربّ العزت کے عطا کردہ علم سے ہوتا ہے، جو حتمی، قطعی اور غیر متبدّل ہے اور اُس میں خطاء کا کلیتاً کوئی اِمکان نہیں ہوتا۔ جبکہ سائنسی علوم کی تمام تر تحقیقات اِقدام و خطا (trial & error) کے اُصول کے مطابق جاری ہیں۔ ایک وقت تک جو اشیاء حقائق کا درجہ رکھتی تھیں موجودہ سائنس اُنہیں کلی طور پر باطل قرار دے کر نئے حقائق منظرِ عام پر لا رہی ہے۔ یہ الگ بات کہ حقائق تک پہنچنے کی اِس کوشش میں بعض اَوقات سائنس غلطی کا شکار بھی ہوجاتی ہے، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ سائنس کی بنیاد ہی سعی اور خطاء (trial & error) پر ہے جو مختلف مُشاہدات اور تجربات کے ذرِیعے حقائق تک رسائی کی کوشش کرتی ہے۔
مذہب مابعدُ الطبیعیاتی (metaphysical) حقائق سے آگہی کے ساتھ ساتھ ہمیں اِس مادّی کائنات سے متعلق بھی بہت سی معلومات فراہم کرتا ہے، جن کی روشنی میں ہم سائنسی علوم کے تحت اِس کائنات کو اپنے لئے بہتر اِستعمال میں لا سکتے ہیں۔
قرآنِ مجید میں اِرشا دِ باری تعالیٰ ہے :
وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ.
(الجاثيه، 45 : 13)
اور اُس (اﷲ) نے سماوِی کائنات اور زمین میں جو کچھ ہے وہ سب تمہارے لئے مسخر کردیا ہے۔
جہاں تک مذہب کا معاملہ تھا اُس نے تو ہمیں اِس حقیقت سے آگاہ کر دِیا کہ زمین و آسمان میں جتنی کائنات بکھری ہوئی ہے سب اِنسان کے لئے مسخر کر دی گئی ہے۔ اَب یہ اِنسان کا کام ہے کہ وہ سائنسی علوم کی بدولت کائنات کی ہر شے کو اِنسانی فلاح کے نکتۂ نظر سے اپنے لئے بہتر سے بہتر اِستعمال میں لائے۔ اِسی طرح ایک طرف ہمیں مذہب یہ بتاتا ہے کہ جملہ مخلوقات کی خِلقت پانی سے عمل میں آئی ہے تو سائنس اور ٹیکنالوجی کی ذِمہ داری یہ رہنمائی کرنا ہے کہ بنی نوع اِنسان کو پانی سے کس قدر فوائد بہم پہنچائے جاسکتے ہیں اور اُس کا طریقِ کار کیا ہو۔ چنانچہ اِس ساری بحث سے ہم اِس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سائنس اور مذہب کہیں بھی اور کسی درجے میں بھی ایک دُوسرے سے متصادِم نہیں ہیں۔

part 5 : islam aur jadeed science



اسلام اور جدید سائنس۔ پارٹ 5





قرون وسطی میں سائنسی علوم کا فروغ. حصہ سوئم
علمِ اَمراضِ چشم (Ophthalmology)
مسلم اَطباء نے اَمراضِ چشم کی دواسازی میں بھی بیش بہا علمی اِضافے کئے۔ علی بن عیسیٰ نے اِنتہائی مشہور کتاب Tadhkirat al-Kahhalin لکھی اور مؤخر الذکر نے صدیوں تک ماہرینِ اَمراضِ چشم کی رہنمائی کی۔ علی بن عیسیٰ کی تصنیفات کو دُنیا میں ہر جگہ پڑھایا گیا حتیٰ کہ Tractus de Oculis Jesu ben Hali کے نام سے اُس کا لاطینی زبان میں ترجمہ بھی ہوا۔ اَمراضِ چشم سے وابستہ ایسی بہت سی فنی اِصطلاحات لاطینی زبان کے علاوہ دِیگر جدید یورپی زبانوں میں بھی اِستعمال ہو رہی ہیں، جن کا منبع عربی زبان ہے۔ اس سے اُن موضوعات پر اِسلامی اَثرات کی بخوبی تصدیق ہوتی ہے۔
Muslim physicians also added valuable knowledge to another branch of medicine, Ali ibn Isa wrote the famous work, Tadhkirat al-Kahhalin (Treasury of Ophthalmologists) and Abu Ruh Muhammad al-Jurani entitled Zarrindast (the Golden Hand) wrote Nur al-Ain (the Light of the Eye). The last book has served practitioners of the art for centuries. Ali ibn Isa's works were taught everywhere and even translated into Latin as Tractus de Oculis Jesu ben Hali. Many of the technical terms pertaining to ophthalmology in Latin as well as in some modern European languages, are of Arabic origin, and attest to the influence of Islamic sources on this subject.
(Islamic Science, pp.166-167)
بیہوش کرنے کا نظام (Anaesthesia)
علی بن عیسیٰ تاریخِ عالم میں پہلا سائنسدان تھا جس نے سرجری سے پہلے مریض کو بے ہوش و بے حس کرنے کے طریقے تجویز کئے۔ اندلس کا نامور سرجن ابوالقاسم الزہراوِی بھی آپریشن سے قبل مریض کو بے ہوشی کی دوا دینے سے بخوبی آگاہ تھا۔ اُسی عہد میں تیونس میں ایک اور ماہر اِسحاق بن سلیمان الاسرائیلی منظرِ عام پر آئے، جو اَمراضِ چشم کے ماہر تھے اور اُن کی تصنیفات کا ترجمہ بھی لاطینی اور عبرانی زبانوں میں کیا گیا۔
Ali ibn Isa was also the first person to propose the use of anaesthesia for surgery. Another person appeared at this time in Tunis, Ishaq ibn Sulaiman al-Israili, who practised ophthalmology and his works were also translated into Latin and Hebrew languages.
(Islamic Science, p.178)
علمُ الکیمیا (Chemistry)
اِسلام کی تاریخ میں علمُ الکیمیا کے باب میں خالد بن یزید رضی اللہ عنہ (704ء) اور امام جعفرالصادق رضی اللہ عنہ (765ء) کی شخصیات بانی اور مؤسس کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہیں۔ نامور مسلم سائنسدان ’جابر بن حیان‘ (776ء) اِمام جعفرالصادق رضی اللہ عنہ ہی کا شاگرد تھا، جس نے کیمسٹری کی دُنیا میں اَنمٹ نقوش چھوڑے۔ مفروضہ اور تصوّر (hypothesis & speculation) کی بجائے اُنہوں نے تجزیاتی تجربیت (objective experimentation) کو رواج دیا اور اُن مسلم رہنماؤں کی بدولت ہی قدیم الکیمی (Alchemy) باقاعدہ سائنس کا رُوپ دھار گئی۔ evaporation، sublimation اور crystallization کے طریقوں کے موجد ’جابر بن حیان‘ ہی ہیں۔ اُن کی کتابیں بھی عرصۂ دراز تک یورپ کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں شاملِ نصاب رہی ہیں۔ ’جابر بن حیان‘ اور اُن کے شاگردوں کی سائنسی تصانیف The Jabirean Corpus کہلاتی ہیں۔ اُن میں کتابُ السبعین (The Seventy Books) اور کتابُ المیزان (The Book of Balance) وغیرہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ اُن کے علاوہ ’ابو مشعر‘، ’سہروردی‘، ’ابنِ عربی‘ اور ’الکاشانی‘ وغیرہ کا کام بھی کیمسٹری کی تاریخ کا عظیم سرمایہ ہے۔ یہ سب علمی اور سائنسی سرمایہ عربی زبان سے لاطینی اور پھر انگریزی میں منتقل کیا گیا۔ چنانچہ زبانوں کی تبدیلی سے مسلم سائنسدانوں کے نام بھی بدلتے گئے۔ مثلاً الرازی کو Rhazes، ابنِ سینا کو Avicenna، ابوالقاسم کو Abucasis اور ابنُ الھیثم کو Alhazen بنا دیا گیا۔ اِسی طرح عربی اِصطلاحات بھی تراجم کے ذرِیعے تبدیل ہو گئیں، نتیجتاً آج کا کوئی مسلمان یا مغربی سائنسدان جب تاریخ میں اُن ناموں اور اصطلاحات کو پڑھتا ہے تو وہ یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ یہ سب اِسلامی تاریخ کا حصہ ہے اور یہ اَسماء عربیُ الاصل (Arabic origin) ہیں۔
اِن حقائق کو جاننے کے لئے مزید ملاحظہ فرمائیں :
1. Prof. Hitti, History of the Arabs, pp.578-579 (London, 1974).
2. A and R. Kahane, The Krater and the Grail, Hermetic Sources of the Parzival, Urbana (Illinois, 1965).
3. Corbin, En Islamiranien vol.2, chap.4 (Paris, 1971).
4. F.a.Yates, Giordana Bruno and the Hermetic Tradition (London, 1964).
5. Syed Husain Nasir, Islamic Science (London, 1976).
6. George Sorton, An Introduction to the History of Science.
7. Briffault, The Making of Humanity.
8. Schaclt. J and Bosworth C.E. The Legacy of Islam (Oxford, 1947).
9. Watt-W.M. and Cachina P, A History of Islamic Spain (Edinlwrgh).
10. Robert Gulick L.Junior, Muhammad, The Educator (Lahore, 1969).
فنونِ لطیفہ (Fine Arts)
جہاں تک فنونِ لطیفہ کا تعلق ہے، قرآنِ مجید ہی کے شغف سے قرونِ وُسطیٰ میں ’فنِ خطاطی‘ (calligraphy) کو فروغ ملا۔ مساجد کی تعمیر سے ’فنِ تعمیر‘ (architecture) اور ’فن تزئین و آرائش‘ (decorative art) میں ترقی ہوئی۔ حرمِ کعبہ، مسجدِنبوی، بیتُ المقدس، سلیمانیہ اور دیگر مساجدِ اِستنبول ترکی، تاج محل، قصرِخُلد (بغداد)، جامع قرطبہ، الحمراء اور قصرُ الزہراء (اندلس) وغیرہ اِس فن کی عظیم تاریخی مثالیں ہیں۔
اندلس میں فنونِ لطیفہ کو تمام عالمِ اِسلام سے بڑھ کر تروِیج ملی اور وہاں خطّاطی (calligraphy)، موسیقی (music)، تعمیر و تزئین(architecture & decorative art)، مصوّری (painting)، فیشن اور دُوسرے بہت سے صنعتی فنون اپنے دَور کی مناسبت سے ترقی کی اَوجِ ثریا پر فائز تھے۔ اندلس کی ثقافتی ترقی اور فنونِ لطیفہ کے اِرتقاء کا ذِکر متعلقہ باب میں بالتفصیل ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
علمِ فقہ و قانون (Law & Jurisprudence)
اِس باب میں اِمامِ اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 150ھ) نے دُوسری صدی ہجری کے اَوائل میں ہی تاریخِ قانون میں اُن نادِر ذخائر کا اِضافہ کیا جو صدیاں گزرنے کے باوُجود آج تک مینارۂ نور ہیں۔
1۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے تلامذہ میں سے بالخصوص اِمام محمد بن حسن شیبانی رحمۃ اللہ علیہ نے ’السیرالکبیر‘ اور ’السیرالصغیر‘ کی صورت میں public international law اور private international law پر اِما مِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی فرمودہ تصانیف مرتب کیں۔ جن پر بعد ازاں اِمام سرخسی رحمۃ اللہ علیہ نے ’شرحُ السیر‘ کے نام سے چار جلدوں پر مشتمل شرح لکھی، جو اپنے دَور میں آج کے strake اور oppeheim سے بہتر مجموعہ تھا۔ اِمام سرخسی رحمۃ اللہ علیہ کی ہی 30 جلدوں پر مشتمل ضخیم کتاب ’المبسوط‘ قانون (law) پر آج سے تقریباً ایک ہزار سال قبل کا لکھا ہوا ایک نادرُ المثال مجموعہ ہے۔ یہ تاجدارِکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے عطا کردہ فیض کا کارنامہ تھا کہ عالمِ اِسلام اُس دَور میں قانون پر ایسی کتب مہیا کر رہا تھا، جبکہ باقی پوری دُنیا جہالت کے اَٹاٹوپ اندھیروں میں گم تھی۔ آج مغرب کی علمی تاریخ میں اُس دَور کو dark ages کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، جبکہ اہلِ اِسلام کے ہاں وہ دَور علوم و فنون کی روشنی سے درخشاں و منوّر تھا۔
2۔ بین الاقوامی قانون پر اِمام زید بن علی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 120ھ) کی کتاب ’المجموع‘ میں بھی مفصل باب شامل تھا۔ اِمام مالک رحمۃ اللہ علیہ، اِمام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ، اِمام محمد رحمۃ اللہ علیہ، اِمام اَوزاعی رحمۃ اللہ علیہ، اِمام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر ائمہ فقہ و قانون نے بھی اِس موضوع پر بھرپور مواد فراہم کیا، جو علمی و قانونی تاریخ کا بیش بہا سرمایہ ہے۔
3۔ comparative case law، جو دورِ جدید کا ایک نہایت اہم قانونی فن اور علمی موضوع ہے، اُس پر دُوسری صدی ہجری میں ہی باضابطہ کام شروع ہو گیا تھا۔ دبوسی، ابنِ رُشد، شاطبی اور سیموری وغیرہ کی تصانیف اِس فن کے اَعلیٰ پایہ کے نمونے ہیں۔
4۔ علمِ دستور (constitutional law) پر دُنیا کی سب سے پہلی باضابطہ دستاویز خود حضور سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تیارہ کردہ ’’میثاقِ مدینہ‘‘ (The Pact of Madina) ہے، جو 63 دفعات (articals) پر مشتمل ہے۔ یہ آئینی و دستوری دستاویز ابنِ ہشام رحمۃ اللہ علیہ، ابنِ اِسحاق رحمۃ اللہ علیہ، ابو عبید رحمۃ اللہ علیہ، ابنِ سعد رحمۃ اللہ علیہ، ابنِ کثیر رحمۃ اللہ علیہ اور ابنِ اَبی خثیمہ رحمۃ اللہ علیہ کے ذرِیعے کامل شکل میں ہم تک پہنچی۔ جدید مغربی دُنیا کا آئینی و دستوری سفر 1215ء میں اُس وقت شروع ہوا جب شاہِ انگلستان King John نے ’محضّرکبیر‘ (Magna Carta) پر دستخط کئے، جبکہ اُس سے 593 سال قبل ہجرت کے پہلے سال 622ء میں ریاستِ مدینہ میں حضور نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اِنسانیت کو معاشی و سماجی عدل اور مساوات پر مُشتمل ایک جامع تحریری دستور دیا جا چکا تھا۔ یہ دُنیا کا سب سے پہلا تحریری آئین (written constitution) ہے، جس سے قبل تاریخِ عالم میں باقاعدہ اور باضابطہ ریاستی دستور کے تحریر کئے جانے کی ایک مثال بھی نہیں ملتی۔ یہ تاریخِ علم و قانون اور تاریخِ سیاسیات میں حضور نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پہلا کارنامہ ہے۔ اُس سے پہلے شہری ریاستوں اور ہندوستان کے دساتیر سمیت منوسمرتی (500 ق م)، آرتھ شاستر (300 ق م) اور ارسطو (322ق م) کی تصانیف میں جو کچھ ملتا ہے وہ سب پند و نصائح پر مشتمل درسی اور تعلیمی نوعیت کا کام ہے۔ ارسطو کا ’شہر ایتھنز کا دستور‘ (Athenian Constitution) جو گزشتہ صدی میں مصر سے دریافت ہوا اور 1891ء میں شائع ہوا، وہ بھی اِسی نوعیت کا کام ہے جو مسلمانوں کے ہاں ’نصیحتُ الملوک‘ جیسی کتابوں میں عام پایا جاتا ہے، جن میں کسی ریاست کا نظام چلانے کے سلسلے میں بادشاہوں کے لئے پندونصائح شامل ہیں۔ کسی سربراہِ ریاست یا حکومت کی طرف سے ارسطو کی یہ دستاویزات باقاعدہ دستور کے طور پر نافذ ہوئیں اور نہ ہی وہ اِس نوعیت کے دستاویز تھیں کہ اُنہیں نافذ کیا جاتا۔ یہ شان سب سے پہلے ’’میثاقِ مدینہ‘‘ کو حاصل ہوئی اور یہ اَمر سیرتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک درخشندہ تاریخی باب ہے۔
تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے دستوری و آئینی کام کے باضابطہ آغاز کے بعد اِس موضوع پر الماوردی رحمۃ اللہ علیہ اور ابوعلی رحمۃ اللہ علیہ کی ’الاحکام السلطانیہ‘، غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی ’نصیحۃُ الملوک‘، طرطوسی رحمۃ اللہ علیہ کی ’سراجُ الملوک‘ اور الفارابی رحمۃ اللہ علیہ کی ’المدینہ الفاضلہ‘ جیسی درسی کتب بھی معرضِ وُجود میں آئیں۔ الغرض مسلمانوں کی دستوری و آئینی خدمات میں سے سب سے اہم خدمت یہ ہے کہ اُنہوں نے ریاست کے تین اہم اعضاء مقننہ (legislature)، اِنتظامیہ (executive) اور عدلیہ (judiciary) کو الگ الگ تشخص دیا۔ اُنہیں عہدِ خلافتِ راشدہ میں ہی ’اہل الحل والعقد‘، ’اُولی الامر‘ اور ’القضا‘ کے مستقل نام دے دیئے گئے تھے اور اُن کے دائرہ ہائے کار بھی متعین کر دیئے گئے تھے، جبکہ مغربی علمِِ دستور میں اُن کا تصوّر بہت بعد میں فروغ پذیر ہوا۔
5۔ Common law پر باقاعدہ فقہی و قانونی مجموعات (juristic & legal codes) بھی اِسلام کی دُوسری صدی کے اَوائل میں مرتب ہونا شروع ہو گئے تھے۔ جنہیں باقاعدہ حصص اور اَبواب (parts & chapters) میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ عبادات (religious laws)، مناکحات (family laws)، معاملات و معاہدات (civil & contractual laws)، عقوبات (penal laws)، مالیات (fiscal laws) اور قضا و شہادات (procedural & evidence laws) وغیرہ کی باقاعدہ قانونی تقسیم بھی تاریخِ اِسلام کی پہلی صدی میں ہی عمل میں آچکی تھی۔ یہ سب وہ علمی نظم تھا جو مسلمانوں کو اَوائلِ اِسلام سے ہی قرآنِ مجید کی تعلیمات اور حضور نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتِ مبارکہ کے ذریعے میسر آگیا تھا، جبکہ اُس وقت مغربی دُنیا بنیادی حقوق انسانی اور علم و آگہی کے تصوّر سے ہی یکسر محروم تھی۔
اِمام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی کتب ’ظاہرالروایہ‘ جنہیں اُن کے شاگرد اِمام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے مرتب کیا، اُن کے علاوہ اِمام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی ’الموطا‘، اِمام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ’کتابُ الام‘ اور دیگر ائمہ کی تصانیف کے ذریعے فقہ و قانون کا عظیم سرمایہ معرضِ وُجود میں آگیا تھا۔ بعد اَزاں ’’فقہ حنفی‘‘ میں سرخسی رحمۃ اللہ علیہ کی ’المبسوط‘، مرغینانی رحمۃ اللہ علیہ کی ’الھدایہ‘، ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ کی ’فتح القدیر‘، کاسانی رحمۃ اللہ علیہ کی ’بدائع الصنائع‘ وغیرہ، ’’فقہ مالکی‘‘ میں ابنِ سحنون رحمۃ اللہ علیہ کی ’المدوّنۃ الکبریٰ‘، ابنِ جزی رحمۃ اللہ علیہ کی ’القوانین الفقیہ‘، ابنِ فرحون رحمۃ اللہ علیہ کی ’تبصرۃُ الحکام‘، الخطاب رحمۃ اللہ علیہ اور خرشی رحمۃ اللہ علیہ کی شرح ’المختصر‘ وغیرہ، ’’فقہ شافعی‘‘ میں نووی رحمۃ اللہ علیہ کی ’المجموع‘، غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی ’الوجیز‘، بصیر رحمۃ اللہ علیہ کی ’النہایہ‘ وغیرہ، ’’فقہ حنبلی‘‘ میں ابنِ قدامہ رحمۃ اللہ علیہ کی ’کتابُ المغنی‘ اور ابنِ القیم رحمۃ اللہ علیہ کی ’اعلام الموقعین عن رب العالمین‘، ابنِ حزم رحمۃ اللہ علیہ کی ’المحلی‘ اور القرافی رحمۃ اللہ علیہ کی ’الفروق‘ وغیرہ، ’’فقہ جعفریہ‘‘ میں الحلی رحمۃ اللہ علیہ کی ’شرائع الاسلام‘ جواد مغنیہ رحمۃ اللہ علیہ کی ’فقہ الامام جعفر الصادق‘ وغیرہ اور ’الفقہ علی المذاہب الاربعہ‘ (الجزیری) جیسی کتب مرتب ہوتی رہی ہیں۔ Case law پر فتاویٰ اور شرعی فیصلہ جات (judicial decisions) کے ’فتاویٰ قاضی خان‘، ’فتاویٰ بزازیہ‘، ’فتاویٰ ابنِ تیمیہ‘، ’فتاویٰ اِمام نووِی‘، ’فتاویٰ اِمام سبکی‘ اور ’فتاویٰ الہندیہ‘ جیسے مجموعات مرتب ہوئے۔
6۔ fiscal & taxation law اور administrative law میں اِمام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ اور یحییٰ بن آدم رحمۃ اللہ علیہ کی ’کتابُ الخراج‘ اور ابو عبید قاسم بن سلام رحمۃ اللہ علیہ کی ’کتابُ الاموال‘ اوائل دَور کے بہترین علمی شہ پارے ہیں۔
علم تاریخ اور عمرانیات (Historiography & Sociology)
اِن علوم میں بھی اِسلام کی اِبتدائی صدیوں میں گرانقدر سرمایہ جمع کیا گیا، جس کے ذریعے نہ صرف سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلکہ دس ہزار سے زائد صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے حالات و سوانح بھی پوری تحقیق کے بعد مرتب ہوئے۔ تاریخِ اِسلام میں اِس علم کو ’اَسماءُ الرِجال‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے، جس کے تحت محققین نے 5 لاکھ سے زیادہ صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور دِیگر رُواۃِ حدیث کے اَحوالِ حیات مرتب کئے۔ یہ فن اپنی نوعیت میں منفرد ہے جو دُنیا کی کسی قوم اور مذہب میں تھا اور نہ ہے۔ ابنِ اِسحاق رحمۃ اللہ علیہ، جنہوں نے عہدِ حضرت آدم علیہ السلام سے عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پوری اِنسانی تاریخ مرتب کی، اِسلام کے عظیم اوّلیں مورخین میں سے ہیں۔ اِسی طرح ابنِ ہشام رحمۃ اللہ علیہ، طبری رحمۃ اللہ علیہ، مسعودی رحمۃ اللہ علیہ، مسکویہ حلبی رحمۃ اللہ علیہ، اندلسی رحمۃ اللہ علیہ، ابنِ خلدون رحمۃ اللہ علیہ، دیار بکری رحمۃ اللہ علیہ، یعقوبی رحمۃ اللہ علیہ، بلاذری رحمۃ اللہ علیہ، ابنُ الاثیر رحمۃ اللہ علیہ، ابنِ کثیر رحمۃ اللہ علیہ، سہیلی رحمۃ اللہ علیہ، ابنِ سیدُالناس رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے کام بھی تاریخی اہمیت کے حامل ہیں، جبکہ political thought اور sociology میں غزالی رحمۃ اللہ علیہ، فارابی رحمۃ اللہ علیہ، ماوردی رحمۃ اللہ علیہ، ابنِ خلدون رحمۃ اللہ علیہ، ابنِ رُشد رحمۃ اللہ علیہ، ابنِ تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ، ابنُ القیم رحمۃ اللہ علیہ اور شاہ ولی اللہ محدّث دِہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی تالیفات نہایت اہم ہیں۔
جغرافیہ اور مواصلات (Geography & Communications)
اِسلامی عہد کے عروج کے موقع پر علمِ جغرافیہ میں بھی خوب ترقی ہوئی۔ بلاذری رحمۃ اللہ علیہ اور ابنِ جوزی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ عہدِ فاروقی میں ہی خلافتِ اِسلامیہ کی ڈاک ہر وقت ’ترکستان‘ (Central Asia) سے ’مصر‘ (Egypt) تک کے علاقے میں روانہ ہوتی تھی۔ geography اور topography کے ماہرین ڈاک کے ساتھ دورانِ سفر تمام علاقوں کے نقشے تیار کر کے لف کرتے اور تمام متعلقہ مقامات کی جغرافیائی، تاریخی اور اِقتصادی معلومات بھی بترتیبِ ہجائی (alphabetic order) میں فراہم کرنے کا اِہتمام کیا جاتا تھا۔
اوائل دورِ اسلام میں ’ابنِ حوقل‘ نے بھی معلوم کرۂ ارض کے نقشے تیار کئے اور cartography کے فن پر تحقیق کی۔ اپنے بنائے ہوئے نقشوں میں اُس نے زمین کو کروِی شکل (circular shape) میں دِکھانے کے ساتھ ساتھ بحیرۂ رُوم (mediterranian sea) کی حدُود کی صحیح شناخت بھی کروائی۔ اِسی طرح ’الادریسی‘ کا نقشہ جو شاہِ سسلی (1101ء۔ 1154ء) کے لئے آج سے 9 صدیاں قبل تیار کیا گیا تھا، اُس میں دُنیائے عالم کے طوِیل ترین دریا ’دریائے نیل‘ (Nile) کے مصادر (sources) تک کی خبر دی گئی ہے، جو اُس کے ڈیلٹا سے 6,670 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔
یاقوت حموِی رحمۃ اللہ علیہ ‘ نے ’معجمُ البلدان‘ کے نام سے جغرافیہ پر اُس وقت کی سب سے بڑی معجم (dictionary) مرتب کی، جس نے اہلِ دُنیا کو دُنیا کا علم فراہم کیا۔ اِس کتاب میں اُنہوں نے دُنیا کے تمام بڑے شہروں اور قصبوں کی تفصیلات حروفِ تہجی کی ترتیب (alphabetic order) سے پیش کی ہیں۔
خوارزمی‘ نے ’صورۃُ الارض‘ (Image of the Earth) کے نام سے ایسا جغرافیائی مطالعہ اہلِ علم کو عطا کیا جو بعد ازاں جدید جغرافیہ کی بنیاد بنا۔
حمدانی‘ (945ء) نے آج سے گیارہ سو سال قبل چوتھی صدی ہجری میں علمِ جغرافیہ میں اِنتہائی گرانقدر معلومات کا اِضافہ کیا۔
نامور مغربی مؤرِخ Prof. Hitti نے اِن مسلمان ماہرینِ فن کی علمی خدمات کے اِعتراف میں لکھا ہے کہ :
"The bulk of this scientific material, whether astronomical, astrological or geographical, penetrated the west through Spanish and Sicilian channels."
(History of the Arabs, pp.383-387)
ترجمہ : ’’اُس سائنسی مواد کا زیادہ تر حصہ۔۔۔ خواہ وہ ’علمِ فلکیات‘ (اَجرامِ سماوِی کا علم) کے مطالعہ پر مبنی ہو یا ’علم نجوم‘ (پیش بینی) کے مطالعہ پر یا ’علم جغرافیہ‘ پر مبنی ہو۔۔۔ اندلس (Spain) اور (اٹلی کے جنوبی ساحل پر واقع جزیرے) سسلی (Sicily) کے ذریعے عالمِ مغرب میں داخل ہوا‘‘۔
علمِ جغرافیہ (geography) میں قرونِ وُسطیٰ کے مسلمان اِس قدر مشّاق تھے کہ اُن کا فن عالمی شہرت اِختیار کر گیا تھا۔ چنانچہ 1331ء میں چین (China) کا سرکاری نقشہ (official map) بھی مسلمان جغرافیہ دانوں نے ہی تیار کیا تھا۔
(Islamic Culture, 8 : 514, Oct.1934)
وہ ہزارہا اِسلامی سکے جو جزیرہ نمائے سکینڈے نیویا (Scandinavia)، فن لینڈ (Finland)، کازن (Kazan) اور رُوس (Russia) کے دِیگر دُور دراز مقامات کی کھدائیوں سے دریافت ہوئے ہیں، مسلمانوں کے اوائلِ اسلام میں کئے جانے والے تجارتی سفروں اور عالمی سرگرمیوں کی خبر دیتے ہیں۔ Vasco de Gama کے پائلٹ ابنِ ماجد نے مسلمانوں میں اُس دَور میں قطب نما (compass) کے اِستعمال کی خبر دی ہے۔ اِس فن کی بہت سی جدید اِصطلاحات میں بھی قرونِ وُسطیٰ کے عرب مسلمان سائنسدانوں کی باقیات ملتی ہیں۔ حتیٰ کہ arsenal, admiral, cable, monsoon اور tariff وغیرہ جیسے بے شمار عربیُ الاصل اَلفاظ و اِصطلاحات آج کی جدید دُنیا میں بھی متداوَل ہیں، جس سے جدید مغربی کلچر پر مسلم علم و ثقافت کے اَثرات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صحرائے عرب کے اَن پڑھ باسی جن کے ہاں پڑھنا لکھنا بھی عیب تصوّر ہوتا تھا، جن کی بدوِی زندگی میں صدیوں تک علمی و فکری ترقی کے ظاہراً کوئی اِمکانات دکھائی نہ دیتے تھے اور ’فتوحُ البلدان‘ میں ’بلاذری‘ کی رِوایت کے مطابق جس قوم کی شرحِ خواندگی کا یہ عالم تھا کہ مکہ شہر کے گرد و نواح میں آباد لاکھوں کی آبادی میں کل 10 سے 15 اَفراد ایسے تھے جو سادہ حد تک لکھ پڑھ سکتے تھے، اُن کے علاوہ کسی کو اپنا نام تک لکھنا نہیں آتا تھا۔ وہ قوم تعلیمی پسماندگی کی اُس حالت سے اُٹھ کر صرف ایک ہی صدی کے بعد علم و فن، تہذیب و ثقافت اور سائنس و ٹیکنالوجی کے آسمان پر ستاروں کی طرح چمکنے لگی اور پوری دُنیائے تاریک میں تہذیب و ثقافت اور علوم و فنون کی روشنی پھیلانے لگی۔ آخر اس محیرالعقول علمی و فکری اور سائنسی و ثقافتی اِنقلاب کا سبب کیا تھا؟ کیا یہ عدیمُ المثال اِنقلاب صرف اور صرف حضور نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیضانِ سیرت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے دی گئی اِسلام کی آفاقی تعلیمات کا نتیجہ نہیں تھا جس نے اَن پڑھ صحرا نشینوں کو ہزارہا علوم و فنون کا بانی اور جدید تہذیب و ثقافت کا مؤسس بنا دیا؟ یہ وہ سوال ہے جس نے مغربی مفکرین اور مؤرِخین کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اُن کے ذِہنوں میں بھی یہی سوال اُٹھا ہے اور بعضوں نے اُس کا صحیح جواب تلاش کر لیا ہے اور بعض ابھی تک متذبذب ہیں۔

اِسلامی سائنس اور مستشرقین کے اِعترافات

یہ ایک حقیقت ہے کہ دُنیائے علم و ثقافت میں عرب مسلمانوں کی یہ حیرت انگیز ترقی اِسلام کی آفاقی تعلیمات ہی کی بدولت ممکن ہوئی اور جب تک مسلمان بحیثیتِ قوم قرآن و سنت کی فطری تعلیمات سے متمسّک رہے رُوحانی بلندی کے ساتھ ساتھ مادّی ترقی کی بھی اَوجِ ثریا پر فائز رہے اور جونہی اُنہوں نے لغزش کی اور اِسلامی تعلیمات سے اِعراض کا رستہ اپنایا قعرِ مذلّت میں جا گرے۔
ایک غیر مسلم مؤرّخ نے اِسی حقیقت کو یوں بیان کیا ہے :
The coming of Islam six hundred years after Christ, was the new, powerful impulse. It started as a local event, uncertain in its outcome; but once Muhammad conquered Makkah in 630 AD, it took the southern world by storm. In a hundred years, Islam conquered Alexandria, established a fabulous city of learning in Baghdad and thrust its frontier to the east beyond Isfahan in Persia. By 730 AD the Muslim Empire reached from Spain and Southern France to the borders of China and India. An empire of spectacular strength and grace while Europe lapsed into the Dark Age۔۔۔ Muhammad had been firm that Islam was not to be a religion of miracles, it became in intellectual content a pattern of contemplation and analysis.
(J Bronowski, The Ascent of Man, London 1973, pp.165-166)
ترجمہ : ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے چھ سو برس بعد اِسلام کا ظہور ایک نئی توانا تحریک کے طور پر ہوا۔ اُس کا آغاز ایک مقامی حیثیت سے ہوا، اور شروع میں نتائج کے اِعتبار سے صورتِ حال غیر یقینی تھی، مگر نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 630ء میں جونہی فاتح بن کر مکہ میں داخل ہوئے تو دُنیا کے جنوبی حصہ میں حیرت انگیز تبدیلی واقع ہوئی۔ ایک صدی کے اندر ’اسکندریہ‘ فتح ہوا، ’بغداد‘ اِسلامی علم و فضل کا شاندار مرکز بنا اور اِسلامی حدوں کی وُسعت مشرقی اِیران کے شہر ’اِصفہان‘ سے آگے نکل گئی۔ 730ء تک اِسلامی سلطنت ’اندلس‘ اور ’جنوبی فرانس‘ کو سمیٹتی ہوئی ’چین‘ اور ’ہندوستان‘ کی سرحدوں تک جا پہنچی۔ طاقت اور وقار کی اِس اِمتیازی شان کے ساتھ جہاں مسلم سلطنت اپنے عروج پر تھی وہاں یورپ اُس وقت پستی اور تنزّل کے تاریک دَور سے گزر رہا تھا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِسلام کو معجزات کے محدُود دائرہ میں رکھنے کی بجائے اُسے غور و فکر اور تجزیہ کی نمایاں عقلی و فکری چھاپ عطا کی۔
اِسی طرح Robert L. Gulick نے بیان کیا ہے :
It should be borne in mind, however, that these aphorisms (maxims found in ahadith) have been widely accepted as authentic and it cannot be doubted that they have exerted a wide and salutary influence. The words attributed to Muhammad must assuredly have stimulated and encouraged the great thinkers of the Golden Age of Islamic civilisation.
(Muhammad, The Educator)
ترجمہ : ’’اِس اَمر کو بخوبی ذِہن میں رکھنا چاہئے کہ ان اَحادیث کو اِنتہائی مستند حیثیت حاصل رہی ہے اور نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُن اِرشادات کا بہت مفید اور گہرا اَثر مرتب ہوا ہے۔ اُن اَحادیث نے اِسلامی تہذیب کے سنہری دَور کے عظیم مفکرین پر نہایت صحتمند اور رہنما اَثر ڈالا ہے‘‘۔
پروفیسر Robert علم اور حصولِ علم کی اہمیت و فضیلت پر مبنی آیات و اَحادیث کے ذِکر کے بعد مزید لکھتا ہے :
These statements must not be construed as idle and useless words. The results have been very substantial. The strength of Islamic science was its devotion to practical matters rather than to the vague notions of the Byzantine Greeks.
(Muhammad, The Educator)
’’Robert L. Gulick کہتا ہے کہ (اِسلام کے) اُن اَقوال کو بے فائدہ اور بے مقصد نہیں سمجھنا چاہئے، کیونکہ اُن پر عمل کرنے سے ٹھوس نتائج مرتب ہوئے ہیں۔ اِسلامی سائنس کی اصل طاقت اِس اَمر میں مضمر ہے کہ یہ بازنطینی یونانی واہموں کے برعکس تجرباتی اُمور پر زیادہ توجہ مرکوز کرتی ہے‘‘۔
اِس موضوع پر مغرب کے نامور مؤرِخ اور محقق Robert Briffault کا تجزیہ ملاحظہ ہو۔ وہ لکھتا ہے :
It is highly probable that but for the Arabs, modern European civilisation never have assumed that۔۔۔ character which has enabled it to transcend all previous phases of evolution. For although there is not a single aspect of European growth in which the decisive influence of Islamic culture is not traceable, nowhere is it so clear and momentous as in the genesis of that power which constitutes the paramount distinctive force of the modern world and the supreme source of its victory, natural science and the scientific spirit. What we call science arose in Europe as a result of a new spirit of enquiry, of new methods of investigation, experiment, observation and measurement of the development of mathematics in a form unknown to the Greeks. That spirit and those methods were introduced into the European world by the Arabs.
(The Making of Humanity, pp.190-191)
رابرٹ بریفالٹ نے کہا ہے کہ اِس بات کا غالب اِمکان ہے کہ عرب مشاہیر سے خوشہ چینی کئے بغیر جدید یورپی تہذیب دورِ حاضر کا وہ اِرتقائی نقطۂ عروج کبھی حاصل نہیں کر سکتی تھی جس پر وہ آج فائز ہے۔ یوں تو یورپی فکری نشوونما کے ہر شعبے میں اِسلامی ثقافت کا اثر نمایاں ہے لیکن سب سے نمایاں اثر یورپی تہذیب کے اُس مقتدِر شعبے میں ہے جسے ہم تسخیرِ فطرت اور سائنسی وِجدان کا نام دیتے ہیں۔ یورپ کی سائنسی ترقی کو ہم جن عوامل کی وجہ سے پہچانتے ہیں وہ ’جستجو‘، ’تحقیق‘، ’تحقیقی ضابطے‘، ’تجربات‘، ’مُشاہدات‘، ’پیمائش‘ اور ’حسابی مُوشگافیاں‘ ہیں۔ یہ سب چیزیں یورپ کو معلوم تھیں اور نہ یونانیوں کو، یہ سارے تحقیقی اور فکری عوامل عربوں کے حوالے سے یورپ میں متعارف ہوئے۔
یہ بات بڑی حوصلہ اَفزا ہے کہ مغربی مفکرین نے اِس حقیقت کو اِن کھلے اَلفاظ میں تسلیم کیا ہے :
There is no doubt that the Islamic sciences exerted a great influence on the rise of European science; and in this Renaissance of knowledge in the west there was no single influence, but diverse ones; the main influence was of course, from Spain, then from Italy and Palestine through the crusaders, who had mixed with Muslims and seen the effect of sciences in Muslim culture.
(Joseph Schacht & C.E.Bosworth, The Legacy of Islam, pp.426-427)
ترجمہ : ’’اِس اَمر میں قطعی کوئی شبہ نہیں کہ یورپ کے سائنسی فکر پر اِسلامی سائنسی فکر کا گہرا اَثر مرتب ہوا۔ مغرب کی اِس علمی نشاۃِ ثانیہ پر دِیگر کئی اَثرات بھی مرتب ہوئے۔ مگر بنیادی طور پر سب سے گہرا اَثر اندلس (Spain) سے آیا، پھر اٹلی اور فلسطین کی جانب سے اَثرات مرتب ہوئے کیونکہ صلیبی جنگوں نے مغربی ممالک کے لوگوں کو فلسطینی مسلم ثقافت اور سائنسی اُسلوب سے رُوشناس کرایا‘‘۔
ایک اور یورپی محقق نے اِس اَمر کی تصریح اِن اَلفاظ میں کی ہے :
Islam, impinging culturally upon adjacent Christian countries, was the virtual creator of the Renaissance in Europe.
(Stanwood Cobb, Islam's Contribution to World Culture)
Stanwood Cobb نے اپنی درج بالا کتاب میں یہاں تک کہا ہے کہ یورپ کی نشاۃِ ثانیہ حتمی طور پر اِسلام کا مرہونِ منت ہے۔
اِس اِعترافِ حقیقت کے ساتھ ساتھ یورپی محققین نے براہِ راست اِس سوال پر بھی توجہ کی ہے کہ وہ اِنقلاب کس چیز کے زیرِاثر آیا اور اُس کا محرّک کیا تھا؟
Robert L. Gulick نے درج ذیل اَلفاظ میں اِس حقیقت کا برملا اِظہار کیا ہے :
That important contributions to world intellectual progress were made by the Arabs is not open to question. But were these development the result of the influence of Muhammad?
(Muhammad, The Educator)
ترجمہ : ’’یہ ایک مصدّقہ حقیقت ہے کہ دُنیا کی شعوری ترقی میں عربوں نے نہایت اہم کردار اَدا کیا، مگر کیا یہ ساری ترقی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَثر کا نتیجہ نہ تھی‘‘۔
اُس نے ’بریفالٹ‘ کے اِس نقطۂ نظر کو ردّ کر دیا ہے کہ عرب سائنسدانوں کا مذہب سے کوئی خاص لگاؤ نہیں تھا اور یہ تمام ترقی عرب علماء اور سائنسدانوں کی اپنی محنت تھی۔ اُس کے نزدیک اِس تمام ترقی کی بنیاد صرف اور صرف دینِ اِسلام اور سیرتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھی، جس کے ذرِیعے عرب مسلمان اور سائنسدان علوم و فنون اور تحقیق و جستجوکی شاہراہ پر گامزن ہو گئے تھے۔
Reverend George Bush نے بڑی صراحت کے ساتھ لکھا ہے :
No revolution in history, if we accept that affected by the religion of the Gospel, has introduced greater changes into the state of the civilised world than that which has grown out of the rise, progress and permanence of Muhammadanism.
(The Life of Muhammad)
ترجمہ : ’’اِلہامی کتابوں کے حوالہ سے کوئی بھی تاریخی اِنقلاب اِتنے ہمہ گیر اَثرات کا حامل نہیں جس قدر پیغمبرِ اسلام کا لایا ہوا اِنقلاب جسے اُنہوں نے پائیدار بنیادوں سے اُٹھایا اور بتدرِیج اُستوار کیا‘‘۔