Wednesday, September 7, 2016

part 7 : islam aur jadeed science




اسلام اور جدید سائنس۔ پارٹ 7






اسلام اور سائنس میں عدم مغائرت۔ حصہ دوم
مغالطے کے اَسباب
اَب جبکہ ہم یہ حقیقت جان چکے ہیں کہ مذہب اور سائنس میں حقیقتاً کوئی تضاد موجود نہیں ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عام ذِہن میں اَیسی غلط فہمی کیوں پائی جاتی ہے اور اِس مغالطے کے اَسباب و عوامل کیا ہیں؟ اگرچہ اِس مغالطے کے اَسباب بہت سے ہیں لیکن بنیادی طور پر دو اہم اَسباب ایسے ہیں جن پر ہم سرِدست خاص طور پر توجہ دینا چاہیں گے۔ اُن میں سے ایک کا تعلق یورپ سے ہے اور دُوسرے کا عالمِ اِسلام سے۔
پہلا سبب۔ ۔ ۔ سولہویں صدی کے کلیسائی مظالم
عالمِ مغرب میں یہ مغالطہ اُس دَور میں پیدا ہوا جب برِاعظم یورپ عیسائی پادریوں کے تسلط میں جہالت کے اَٹاٹوپ اندھیرے میں ڈُوبا ہوا تھا۔ جاہل پادری عیسوی مذہب اور بائبل کی اصل اِسلامی تعلیمات کو مسخ کرکے مَن گھڑت عیسائیت کو فروغ دینے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ بائبل میں تحرِیف کی وجہ سے عقائد اَوہام میں اور عبادات رسوم میں بدل چکی تھیں اور معاشرہ کفر و شرک کی اندھی دلدل میں دھنستا ہی چلا جا رہا تھا۔ عیسائی مذہب کی بنیادی تعلیمات جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آج سے دو ہزار برس قبل دی تھیں اُنہیں بدل کر توحید کی جگہ تثلیث کا عقیدہ گھڑ لیا گیا، جو ایک اِنتہائی نامعقول تصوّر تھا اور اُسے آج خود عیسائی سکالر اور فلاسفر بھی ردّ کر رہے ہیں۔
اِس تحرِیف کے بعد سب سے بڑا فتنہ یہ پیدا ہوا کہ یونانی فلسفہ بائبل کا حصہ بن گیا، جسے دینِ عیسوی کے ماننے والے رفتہ رفتہ اپنا مستقل عقیدہ سمجھنے لگ گئے۔ حالانکہ وہ عقیدہ دراصل اُن کا نہ تھا بلکہ وہ محض یونانی فلسفے کے غلط تصوّرات تھے جو پادریوں کے ذریعے بائبل میں ڈال دیئے گئے تھے۔ اَب اِس تحریف کی وجہ سے بائبل میں یونانی فلسفے پر مبنی بے شمار سائنسی اَغلاط دَر آئیں۔
سولہویں صدی میں جب سائنس نے اُن غلط نظریات کو تحقیق کی روشنی میں جھٹلایا تو اُس وقت کے پادری یہ سمجھے کہ سائنسدان مذہب کو سائنس کے ذریعے ردّ کر رہے ہیں۔ چنانچہ وہ سائنسدانوں اور سائنسی علوم کے خلاف کفر کے فتوے دینے لگے۔ پہلے پہل نظامِ شمسی اور حرکتِ زمین کے بارے میں نئے سائنسی تصوّرات کا یہ نتیجہ نکلا کہ پادریوں نے تکفیر کے فتوے دیئے۔ گلیلیو نے جب 1609ء میں دُوربین اِیجاد کی اور اُس کی مدد سے نظامِ شمسی کی بابت اپنی تحقیقات دُنیا کے سامنے پیش کیں تو پادریوں نے اُسے اِس جرم کی پاداش میں سزائے قید سنائی اور وہ دورانِ قید ہی مر گیا۔ علیٰ ہذا القیاس متعدّد سائنسدانوں کو مذہب کے نام پر متعصب ظالمانہ قوانین کے شکنجے میں کستے ہوئے اُنہیں اپنے سائنسی نظریات واپس لینے پر مجبور کیا گیا، یہاں تک کہ اُن میں سے بعض کو زندہ آگ میں جلا دیا گیا۔ اِن تمام باتوں کے باوُجود سائنس کا کارواں مسلسل آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ اُس جاہلانہ معاشرے میں مذہب اور سائنس کے درمیان ایک گھمبیر جنگ چھڑ گئی۔ قانونِ قدرت کے مطابق حق (سائنس) کو بالآخر فتح نصیب ہوئی اور مسخ شدہ عیسائیت اپنا سر پیٹ کر رہ گئی۔
سائنس کے غلبے کا دَور آیا تو ردِعمل (reaction) کے طور پر سائنسدانوں نے بچے کھچے عیسائی مذہب اور مسخ شدہ بائبل کے خلاف بدلے کے طور پر ایک مہم چلائی، جس کے تحت ایک بڑی تِعداد میں کتابیں اور مضامین شائع کئے گئے۔ باقاعدہ علمی معرکے بپا ہوئے جن کے دَوران عیسائی پادریوں کی کونسل کے اِجلاس بھی ہوتے رہے، جن میں وہ عیسائیت کے دِفاع کی کوشش کرتے۔ چند سال پیشتر پوپ آف روم نے بعض اہلِ کلیسا کی طرف سے دیئے گئے آسمانی کائنات کے متعلق غیرسائنسی اور جاہلانہ فتاویٰ کو منسوخ کرنے کا اِعلان کیا ہے۔
عیسائیت کی شکست کے بعد اگرچہ یہ جنگ اَب ختم ہو چکی ہے تاہم جدید ذِہن اِسلام سمیت دِیگر تمام اَدیان کو بھی عیسائیت ہی کے پردے میں دیکھ رہا ہے اور اُنہیں بھی سائنسی تحقیقات پر پہرے بٹھانے والے اور باطل اَدیان سمجھ رہا ہے، حالانکہ حقیقت بالکل اِس کے برعکس ہے۔ مذہب اور سائنس میں مغایرت کی بحث کبھی بھی اِسلام کی بحث نہ تھی، یہ عیسائیت کے مسخ شدہ مذہب اور سائنس کی جنگ تھی۔ بدقسمتی سے ہمارے نوجوانوں نے سائنسی علوم کی اِبتداء اور پیش رفت کے بارے میں جاننے کے لئے عالمِ اِسلام کی زرّیں تاریخ کا مطالعہ کرنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ اُنہوں نے اندلس (Spain)، بغداد (Baghdad)، دِمشق (Damascus) اور نیشاپور کی اِسلامی سائنسی ترقی کا مطالعہ ہی نہیں کیا۔ آج بھی ہالینڈ کی لیڈن یونیورسٹی کی لائبریری کے ایشین سیکشن (Asian section) میں مسلم سائنسدانوں کی لکھی ہوئی صدیوں پرانی کتابیں موجود ہیں، جو ہمیں اِس حقیقت سے آگاہ کرتی ہیں کہ جب یورپ جہالت کی اتھاہ تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا اُس وقت دُنیائے اِسلام میں سائنسی تحقیقات کی بدولت علم و حکمت اور فکر و دانش کا سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ قرونِ وُسطیٰ میں اِسلامی سائنس کے عروج کے دَور میں سائنسی علوم پر بے شمار کتابیں لکھی گئیں، جن کی تِعداد لاکھوں میں ہے۔ چنانچہ مذہب اور سائنس کی یہ چپقلش اِسلام کی پیدا کردہ نہیں بلکہ یورپ کے دورِ جاہلیت (dark ages) کی پیدا وار ہے اور ہماری نوجوان نسل کی یہ بدقسمتی ہے کہ اُنہوں نے آج تک اِسلام کی تاریخ کو براہِ راست اپنے اِسلامی ذرائع سے نہیں پڑھا اور فقط مغربی ذرائعِ علم پر ہی اِکتفا کیا ہے۔ وہ اِس نکتے کو نہ سمجھ سکے کہ مذہب پر کی جانے والی تمام تنقیدیں اِسلام کے خلاف نہیں بلکہ عیسائیت کی مسخ شدہ مذہبی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ مغربی سائنسدانوں کے سامنے تو اِسلام کا سِرے سے کوئی تصوّر ہی نہیں تھا، لہٰذا کسی بھی سائنسدان کی طرف سے مذہب کے خلاف کی جانے والی تنقیدات کا ہدف اِسلام نہیں۔ ایسی تنقید نام نہاد عیسائی مذہب کے مبنی برجہالت و تعصب نظریات اورعقائد کے خلاف متصوّر ہونی چاہئے۔ اِسلام کا اُس سے کوئی سروکار نہیں۔
دُوسرا سبب۔ ۔ ۔ علمائے اِسلام کی سائنسی علوم میں عدم دِلچسپی
دُوسری اہم وجہ ہمارے علمائے کرام کے اَذہان میں پایا جانے والا ایک غلط تصوّر ہے کہ ہمارے ہاں مدارسِ اِسلامیہ کے نصاب ’درسِ نظامی‘ میں صدیوں سے جو فلسفہ پڑھایا جارہا ہے وہ اِسلام سے مآخوذ ہے۔ یہ تصوّر ہی حقیقت کے خلاف ہے، کیونکہ وہ فلسفہ بنیادی طور پر اِسلامی نہیں بلکہ یونانی فلسفہ ہے۔ ہمارے بعض کم نظر علماء وہ کتابیں پڑھ کر یہ تمیز بھول گئے ہیں کہ وہ فلسفہ یونانی ہے قرآنی نہیں۔ اِسی وجہ سے یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ بعض سائنسی تصورات ہمارے مذہب کے خلاف ہیں، حالانکہ حقیقت اِس سے یکسر مختلف ہے اور بدِیہی طور پر اِسلام اور سائنس میں کسی قسم کا کوئی تضاد اور ٹکراؤ نہیں بلکہ یہ تضاد غلط سوچ اور حقائق سے لاعلمی کی پیداوار ہے۔
یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ اِسلام اپنے ماننے والوں کو مذہب اور سائنس دونوں کا نور عطا کرتا ہے۔ اِس لئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اِسلام دُنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ دِین ہے، جو نہ صرف قدم قدم سائنسی علوم کے ساتھ چلتا نظر آتا ہے بلکہ تحقیق و جستجو کی راہوں میں سائنسی ذِہن کی ہر مشکل میں رہنمائی بھی کرتا ہے۔
واضح رہے کہ جو سائنسی تصوّرات اِس وقت بنی نوع اِنسان کے سامنے آچکے ہیں اور مستقبل کے تناظرات میں سائنس جس طرف بڑھ رہی ہے اُس کے پیش کردہ بنیادی نظریات قرآن و حدیث کے تصوّرات کی تائید و تصدیق کرتے چلے جا رہے ہیں۔ جوں جوں سائنس ترقی کر رہی ہے اِسلام کی حقانیت ثابت ہوتی جارہی ہے۔ بلکہ یہ کہنا بے جا اور مبالغہ آمیز نہ ہوگا کہ جدید سائنس کی ترقی سے مذہب کا نور نکھرتا جارہا ہے اور ایک وقت آئے گا کہ جب سائنس اپنی تحقیقات کے نکتۂ کمال کو پہنچے گی تو اللہ کے دین کا ہر اِیمانی تصوّر سائنس کے ذرِیعے صحیح ثابت ہوجائے گا۔ قرآنِ مجید اور سائنس کا تقابلی مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سائنس کے بے شمار نظریات قرآنی تصوّرات کو صد فی صد صحیح ثابت کرتے ہیں اور وہ دِن دُور نہیں جب سائنس کلی طور پر دینی نظریات کی تائید و توثیق کرنے لگے گی۔

No comments:

Post a Comment