اسلام
اور جدید سائنس۔ پارٹ 4
قرون وسطی میں سائنسی علوم کا فروغ. حصہ دوم
حساب، الجبرا، جیومیٹری
(Mathematics, Algebra, Geometry)
حساب، الجبرا اور جیومیٹری کے میدان میں ’الخوارزمی‘ مؤسسینِ علم
میں سے ایک ہے۔ حساب میں algorism یا
algorithm کا لفظ الخوارزمی (al-Khwarizimi) کے نام سے ہی ماخوذ ہے۔
اُن کی کتاب ’’الجبر و المقابلہ‘‘ کا بارہویں صدی عیسوی میں عربی سے لاطینی زبان
میں ترجمہ کیا گیا۔ یہ کتاب سولہویں صدی عیسوی تک یورپ کی یونیورسٹیوں میں بنیادی
نصابی کتاب (textbook) کے طور پر پڑھائی جاتی رہی اور اُسی سے عالمِ مغرب میں الجبرا
متعارف ہوا۔ اُس کتاب میں ’تفرّق کے معکوس‘ (integration) اور ’مساوات‘ (equation) کی
آٹھ سو سے زائد مثالیں دِی گئی تھیں۔ مستزاد یہ کہ یورپ میں trigonometrical functions کا علم
’البتانی‘ کی تصانیف کے ذریعے اور
tangents کا علم ’ابوالوفا‘ کی تصانیف کے ذریعے پہنچا۔
اسی طرح صفر (zero) کا تصوّر مغرب میں متعارف ہونے سے کم از کم 250 سال قبل عرب
مسلمانوں میں متعارف تھا۔ ابو الوفاء، الکندی، ثابت بن القرّاء، الفارابی،
عمرخیام، نصیرالدین طوسی، ابنُ البناء المراکشی، ابنِ حمزہ المغربی، ابوالکامل
المصری اور اِبراہیم بن سنان وغیرہ کی خدمات arithmetic، algebra، geometry اور trigonometry وغیرہ
میں تاسیسی حیثیت کی حامل ہیں۔ حتیٰ کہ اِن مسلمان ماہرین نے باقاعدہ اُصولوں کے
ذریعے optics اور mechanics کو بھی خوب ترقی دِی۔ یہ بات بھی قابلِ ذِکر ہے کہ ’المراکشی‘
نے mathematics کی مختلف شاخوں پر 70 کتابیں تصنیف کی تھیں، جو بعد اَزاں اِس
علم کا اَساسی سرمایہ بنیں۔ الغرض مسلم ماہرین نے علمِ ریاضی کو یونانیوں سے بہت
آگے پہنچا دیا اور یہی اِسلامی کام جدید mathematics کی بنیاد بنا۔
طبیعیات، میکانیات اورحرکیات
(Physics, Mechanics, Dynamics)
قرونِ وُسطیٰ کے مسلمان سائنسدانوں میں سے ابنِ سینا، الکندی،
نصیرالدین طوسی اور ملا صدرہ کی خدمات طبیعیات کے فروغ میں اِبتدائی طور پر بہت
اہمیت کی حامل ہیں۔ بعد اَزاں محمد بن زکریا رازی، البیرونی او ر ابو البرکات
البغدادی نے اُسے مزید ترقی دی۔ الرازی نے علمِ تخلیقیات
(cosmology) کو خاصا فروغ دیا۔ البیرونی نے ارسطو (Aristotole) کے
کئی طبیعیاتی نظریات کو ردّ کیا۔ البغدادی کی کتاب ’کتاب المعتبر‘ قدیم فزکس میں
نمایاں مقام رکھتی ہے۔ حرکت
(motion) اور سمتی رفتار (velocity) کی نسبت البغدادی اور
ملاصدرہ کے نظریات و تحقیقات آج کے سائنسدانوں کے لئے بھی باعثِ حیرت ہیں۔ پھر
ابنُ الہیثم نے density,
atmosphere, measurements, weight, space, time, velocities, gravitation,
capillary attraction جیسے موضوعات اور تصورات کی نسبت
بنیادی مواد فراہم کر کے علمِ طبیعیات
(physics) کے دامن کو علم سے بھر دیا۔ اِسی طرح mechanics اور dynamics کے باب
میں بھی ابن سینا اور ملا صدرہ نے نمایاں خدمات سراَنجام دیں۔
ابنُ الہیثم کی ’کتابُ المناظر‘
(optical thesaurus) نے اِس میدان میں گرانقدر علم کا
اِضافہ کیا۔ ابنِ باجّہ نے بھی
dynamics میں نمایاں علمی خدمات اِنجام دیں۔ اُنہوں نے
ارسطو کے نظریۂ رفتار کو ردّ کیا۔ اِسی طرح ابنِ رشد نے بھی اِس علم کو ترقی دی۔
اِن مسلم سائنسدانوں نے galileo
سے بھی پہلے
gravitational force کی خبر دِی مگر اُن کا تصوّر دورِ
حاضر کے تصوّر سے قدرے مختلف تھا۔ اِسی طرح momentum کا تصوّر بھی اِسلامی سائنس کے
ذرِیعے مغربی دُنیا میں متعارف ہوا۔ ثابت بن قراء نے lever پر پوری کتاب لکھی، جسے مغربی
تاریخ میں liber karatonis کے نام سے جانا جاتا ہے۔
بغداد کے دِیگر مسلم سائنسدانوں نے تاریخ کے کئی mechanical devices اور godgets وغیرہ پر
بہت زیادہ سائنسی مواد فراہم کیا۔
علم بصریات (Optics)
بصریات (optics) کے میدان
میں تو اِسلامی سائنسی تاریخ کو غیرمعمولی عظمت حاصل ہے۔ بقول پروفیسر آرنلڈ (Arnold) اِس
میدان میں چوتھی صدی ہجری کے ابنُ الہیثم اور کمالُ الدین الفارسی کی سائنسی خدمات
نے پچھلے نامور سائنسدانوں کے علم کے چراغ بجھادیئے۔ ابنُ الہیثم کی معرکۃُ الآراء
کتاب "On Optics" آج اپنے لاطینی ترجمہ کے ذرِیعے زندہ ہے۔ اُنہوں نے تاریخ میں
پہلی مرتبہ lenses کی
magnifying power کو دریافت کیا اور اِس تحقیق نے magnifying lenses کے نظریہ کو اِنسان کے قریب تر کردیا۔ ابنُ الہیثم نے ہی یونانی نظریۂ
بصارت (nature of vision) کو ردّ کر کے دُنیا کو جدید نظریۂ بصارت سے رُوشناس کرایا اور
ثابت کیا کہ روشنی کی شعاعیں
(rays) آنکھوں سے پیدا نہیں ہوتیں بلکہ بیرونی اَجسام (external objects) کی طرف سے آتی ہیں۔ اُنہوں نے پردۂ بصارت (retina) کی حقیقت پر صحیح طریقہ سے بحث
کی اور اُس کا optic nerve اور دِماغ
(brain) کے ساتھ باہمی تعلق واضح کیا۔ الغرض ابنُ الہیثم
نے بصریات کی دُنیا میں اِس قدر تحقیقی پیش رفت کی کہ Euclid اور Kepler کے درمیان اُس جیسا کوئی اور شخص
تاریخ میں پیدا نہیں ہوا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وُہی جدید بصریات (optics) کے بانی
کا درجہ رکھتے ہیں۔ اُن کے کام نے نہ صرف Witelo Roger Bacon اور Peckham جیسے قدیم
سائنسدانوں کو ہی متاثر کیا بلکہ دورِ جدید میں Kepler اور Newton کے کام بھی اُن سے خاصے متاثر
نظر آتے ہیں۔ مزید برآں اُن کا نام
velocities, light, lenses, astronomical observations, meteorology اور camera وغیرہ پر تاسیسی شان کا حامل ہے۔ اِسی طرح قطبُ الدین شیرازی
اور القزوِینی نے بھی اِس میدان میں گرانقدر خدمات اِنجام دی ہیں۔
علمُ النباتات (Botany)
اِس موضوع پر الدینوری (895ء) کی چھ جلدوں پر مشتمل ’کتابُ النبات‘
سائنسی دُنیا میں سب سے پہلا ضخیم اور جامع
Encyclopaedia Botanica ہے۔ یہ مجموعہ اُس وقت تحریر کیا
گیا جب یونانی کتب کا عربی ترجمہ بھی شروع نہیں ہوا تھا۔
ایک مغربی سائنسی مورخ
Strassburg لکھتا ہے :
"Anyhow
it is astonishing enough that the entire botanical literature of antiquity
furnishes us only two parallels to our book (of Dinawari). How was it that the
Muslim people could, during so early a period of its literacy life, attain the
level of the people of such a genius as the Hellenic one, and even surpassed it
in this respect."
(Zeitschrift
fuer Assyriologie, Strassburg, vols. 25,44)
ترجمہ ’’الغرض یہ ایک اِنتہائی حیران کن بات ہے کہ زمانۂ قدیم میں
لکھا جانے والا علمِ نباتات کا مواد ہمیں الدنیوری کی کتاب جیسی صرف دو مثالیں پیش
کرتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہوا کہ اپنی تعلیمی زندگی کے اُس اِبتدائی دَور میں
مسلمانوں نے قدیم یونان جیسے دانشور و محقق لوگوں کا درجہ حاصل کرلیا تھا بلکہ وہ
اِس معاملے میں تو اُن سے بھی آگے نکل گئے تھے‘‘۔
پروفیسر آرنلڈ کے مطابق دُنیا بھر سے مسلمانوں کے مکہ و مدینہ کی
طرف حج اور زیارت کے لئے سفر کرنے کے عمل نے
biological science کو خاصی ترقی دی ہے۔ الغفیقی اور
الادریسی نے اندلس (Spain) سے افریقہ تک سفر کر کے سینکڑوں پودوں کی نسبت معلومات جمع کیں
اور کتابیں مرتب کیں۔
ابنُ العوام نے 585 پودوں کے خواص و اَحوال پر مشتمل کتاب مرتب کی
اور علمُ النباتات (botany) کو ترقی
کی راہوں پر گامزن کیا۔
پروفیسر Hitti بیان کرتا ہے
:
"In
the field of natural history especially botany, pure and applied, as in that of
astronomy and mathematics, the western Muslims (of Spain) enriched the world by
their researches. They made accurate observations on the sexual difference (of
various plants)."
(Ameer
Ali, The Spirit of Islam. pp. 385-387)
ترجمہ : ’’قدرتی تاریخ کے میدان میں خاص طور پر خالص یا اطلاقی علم
نباتات میں فلکیات اور ریاضیات کی طرح اندلس کے مغربی مسلمانوں نے اپنی تحقیقات کے
ذریعہ سے دُنیا کو مستفید کیا۔ اِسی طرح مختلف پودوں میں پائے جانے والے جنسی
اِختلاف کے بارے میں اُن (ابو عبداللہ التمیمی اور ابو القاسم العراقی) کی تحقیقات
بھی علمُ النباتات کی تاریخ کا نادِر سرمایہ ہیں‘‘۔
اِسلامی سپین کے فرمانروا عبدالرحمن اوّل نے قرطبہ (Cordoba) میں ایک زرعی تحقیقاتی اِدارے
’’حدیقہ نباتاتِ طبیہ‘‘ کی بنیاد رکھی، جس سے نہ صرف علمِ نباتات (botany) کو
مستحکم بنیادوں پر اُستوار کرنے کے مواقع میسر آئے بلکہ علمُ الطب (medical sciences) میں بھی تحقیق کے دَر وَا ہوئے۔ چنانچہ اندلس کے ماہرینِ نباتات نے پودوں
میں جنسی اِختلاف کی موجودگی کو بجا طور پر دریافت کرلیا تھا۔ اِس دریافت میں جہاں
اُنہیں ’’حدیقہ نباتاتِ طبیہ‘‘ میں کی گئی تجربی تحقیقات نے مدد دی وہاں اللہ ربّ
العزت کے فرمان ’’خَلَقَ اﷲُ کُلَّ شَیْئٍ زَوْجًا‘‘ (اللہ تعالیٰ
نے ہر شے کو جوڑا جوڑا بنایا) نے بھی بنیادی رہنمائی عطا کی۔
عبداللہ بن عبدالعزیز البکری نے ’کتاب اَعیان النبات و الشجریات
الاندلسیہ‘ کے نام سے اندلس کے درختوں اور پودوں کے خواص مرتب کئے۔ اشبیلیہ کے
ماہرِنباتات (botanist) ابنُ
الرومیہ نے اندلس کے علاوہ افریقہ اور ایشیا کے بیشتر ممالک کی سیاحت کی اور اُس
دوران ملنے والے پودوں اور جڑی بوٹیوں پرخالص نباتی نقطۂ نظر سے تحقیقات کیں۔ اِس
کے علاوہ ابنُ البیطار، شریف اِدریسی اور ابنِ بکلارش بھی اندلس کے معروف ماہرینِ
نباتا ت میں سے ہیں۔
علمُ الطب (Medical Science)
اِس میدان میں بھی اِسلامی تاریخ عدیمُ المثال مقام کی حامل ہے۔
اِس باب میں الرازی، ابو القاسم الزہراوی، ابنِ سینا، ابنِ رُشد اور الکندی کے نام
سرِ فہرست آتے ہیں۔
’’مسلم سائنسدانوں نے اِسلام کے دورِ اَوائل میں ہی بڑے بڑے ہسپتال
اور طبی اِدارے (medical
colleges) قائم کرلئے تھے، جہاں علم الادویہ (pharmacy) اور
علمُ الجراحت (surgery) کی کلاسیں بھی ہوتی تھیں‘‘۔
(Islamic
Science, S.H. Nasr, pp.156)
ایک میلینئم سے زیادہ وقت گزرا جب عالمِ اِسلام کے نامور طبیب
’الرازی‘ (930ء) نے علمُ الطب (medical science)
پر 200 سے زائد کتب تصنیف کی تھیں، جن میں سے بعض کا
لاطینی، انگریزی اور دُوسری جدید زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور اُنہیں صرف 1498ء
سے 1866ء تک تقریباً 40 مرتبہ چھاپا گیا۔ smallpox اور measles پر سب سے پہلے صحیح تشخیص بھی
’الرازی‘ نے ہی پیش کی۔
اِسی طرح ابو علی الحسین بن سینا
(Avicenna)(1037ء) نے ’القانون‘ (Canon of Medicine) لکھ کر دُنیائے طب
میں ایک عظیم دَور کا اِضافہ کیا۔ اِس کا ترجمہ بھی عربی سے لاطینی اور دِیگر
زبانوں میں کیا گیا اور یہ کتاب 1650ء تک یورپ کی بیشتر یونیورسٹیوں میں شاملِ
نصاب رہی۔
ابو ریحان البیرونی (1048ء) نے
pharmacology کو مرتب کیا۔ اِسی طرح علی بن عیسیٰ بغدادی
اور عمار الموصلی کی اَمراضِ چشم اور
ophthalmology پر لکھی گئی کتب اٹھارویں صدی عیسوی کے
نصف اوّل تک فرانس اور یورپ کے
medical colleges میں بطور textbooks شاملِ نصاب تھیں۔ ایک غیرمسلم
مغربی مفکر E. G. Browne لکھتا ہے :
’’جب عیسائی یورپ کے لوگ اپنے علاج کے لئے بتوں کے سامنے جھکتے
تھے اُس وقت مسلمانوں کے ہاں لائسنس یافتہ ڈاکٹرز، معا لجین، ماہرین اور شاندار
ہسپتال موجود تھے‘‘۔ اِس سے آگے اُس کے اَلفاظ ملاحظہ ہوں :
The
practice of medicine was regulated in the Muslim world from the tenth century
onwards. At one time, Sinan ibn Thabit was Chairman of the Board of Examiners
in Baghdad. Pharmacists were also regulated and the Arabs produced the first
pharamcopia drug stores. Barber shops were also subject to inspection.
Travelling hospitals were known in the eleventh century۔۔۔ The great hospital of al-Mansur, founded at Damascus around
1284 AD, was open to all sick persons, rich or poor, male or female, and had
separate wards for men and women. One ward was set apart for fevers, another
for ophthalmic cases, one for surgical cases and one for dysentry and kindred
intestinal ailments. There were in addition, kitchens, lecture-rooms, a
dispensary and so on.
(E.
G. Browne, Arabian Medicine, pp.101)
ترجمہ ’’اِسلامی دُنیا میں دسویں صدی عیسوی سے ہی علمِ طب اور
ادوِیہ سازی کو منظم اور مرتب کر دیا گیا تھا۔ ایک وقت ایسا تھا جب سنان بن ثابت
بغداد میں ممتحنین کے بورڈ کے صدر تھے۔ ادوِیہ سازوں کو بھی باقاعدہ منظم کیا گیا
تھا اور عربوں نے ہی سب سے پہلے میڈیکل سٹورز قائم کئے حتیٰ کہ طبی نقطۂ نظر سے
حجاموں کی دُکانوں کا بھی معائنہ کیا جاتا تھا۔ گیارہویں صدی میں سفری (mobile) ہسپتالوں کا بھی ذِکر ملتا ہے۔
1284ء کے قریب دِمشق میں قائم شدہ عظیمُ الشان ’المنصور ہسپتال‘ موجود تھا۔ جس کے
دروازے امیر و غریب، مرد و زن، غرض تمام مریضوں کے لئے کھلے تھے اور اُس ہسپتال
میں عورتوں اور مردوں کے لئے علیحدہ علیحدہ وارڈ موجود تھے۔ ایک وارڈ مکمل طور پر
بخار کے لئے (fever ward) ایک آنکھوں کی بیماریوں کے لئے (eye ward) ایک وارڈ سرجری کے لئے (surgical ward) اور
ایک وارڈ پیچش (dysentry) اور آنتوں کی بیماریوں (intestinal ailments) کے لئے مخصوص
تھا۔ علاوہ ازیں اُس ہسپتال میں باورچی خانے، لیکچر ہال اور اَدویات مہیا کرنے کی
ڈسپنسریاں بھی تھیں اور اِسی طرح طب کی تقریباً ہر شاخ کے لئے یہاں اِہتمام کیا
گیا تھا‘‘۔
یہ بات طے شدہ ہے کہ مسلمانوں کی طبی تحقیقات و تعلیمات کے تراجم
یورپی زبانوں میں کئے گئے جن کے ذریعے یہ سائنسی علوم یورپی مغربی دُنیا تک منتقل
ہوئے۔ خاص طور پر ابوالقاسم الزہراوی اور المجوسی کی کتب نے طبی تحقیق کی دُنیا
میں اِنقلاب بپا کیا۔ ملاحظہ ہو
:
"Their
medical studies, later translated into Latin and the European languages,
revealed their advanced knowledge of blood circulation in the human body. The
work of Abu`l-Qasim al-Zahrawi, Kitab al-Tasrif,on surgery, was translated into
Latin by Gerard of Cremona and into Hebrew about a century later by Shem-tob
ben Isaac. Another important work in this field was the Kitab al-Maliki of
al-Majusi (died 982 AD), which shows according to Browne that the Muslim
physicians had an elementary conception of the capillary system (optic) and in
the wokrs of Max Meyerhof, Ibn al-Nafis (died 1288 AD) was the first in time
and rank of the precursors of William Harvery. In fact, he propounded the
theory of pulmonary circulation three centuries before Michael Servetus. The
blood, after having been refined must rise in the arterious veins to the lung
in order to expand its volume, and to be mixed with air so that its finest part
may be clarified and may reach the venous artery in which it is transmitted to
the left cavity of the heart.
(Ibn
al-Nafis and his Theory of the Lasser Circulation, Islamic Science, 23 : 166,
June, 1935)
ترجمہ : ’’اُن کے طبی علم اور معلومات والی کتب جن کا بعد ازاں
لاطینی اور یورپی زبانوں میں ترجمہ ہوا، اُن کی اِنسانی جسم میں خون کی گردِش کے
متعلق وُ سعتِ علم کا اِنکشاف کرتی ہیں۔ ’ابوالقاسم الزہراوی‘ کی جراحی پر تحقیق
’کتابُ التصریف لِمَن عجز عنِ التالیف‘ جس کا ترجمہ
Cremona کے
Gerard نے لاطینی زبان میں کیا، اور ایک صدی بعد Shem-tob ben Isaac نے عبرانی زبان میں کیا۔ اِسی میدان میں ایک اور اہم ترین کام المجوسی (وفات
982ء) کی تصنیف ’کتابُ الملیکی‘ ہے، ’براؤن‘ کے مطابق یہ کتاب اِس بات کو ظاہر
کرتی ہے کہ مسلمان اَطباء کو شریانوں کے نظام کے بارے میں بنیادِی تصوّرات اور
معلومات حاصل تھیں اور ’میکس میئرہوف‘ کے اَلفاظ میں ’ابنُ النفیس‘ (وفات 1288ء)
وقت اور مرتبے کے لحاظ سے ’ولیم ہاروے‘ کا پیش رَو تھا۔ حقیقت میں اُس نے ’مائیکل
سرویٹس‘ سے تین صدیاں پہلے سینے میں پھیپھڑوں کی حرکت اور خون کی گردِش کا سراغ
لگایا تھا۔ خون صاف کئے جانے کے بعد بڑی بڑی شریانوں میں وہ یقیناً پھیپھڑے کی
شریانوں میں بلند ہونا چاہئے تاکہ اُس کا حجم بڑھ سکے اور وہ ہوا کے ساتھ مل سکے
تاکہ اُس کا بہترین حصہ صاف ہو جائے اور وہ نبض کی شریان تک پہنچ سکے جس سے یہ دِل
کے بائیں حصے میں پہنچتا ہے‘‘۔
علم ادوِیہ سازی
(Pharmacology)
Seirton
اور
Gulick جیسے مغربی محققین نے لکھا ہے کہ ابن البیطار نے
سادہ ادوِیات کے مجموعے
(collection of simple drugs) کے نام سے ایک کتاب لکھی
جو کہ علمِ نباتات (botany) پر عربی زبان میں اُس زمانے کی سب سے بڑی تصنیف تسلیم کی جاتی
ہے۔ اُس نے بحیرۂ رُوم میں اندلس
(Spain) سے لے کر شام (Syria) تک کے علاقے سے مختلف پودے، جڑی
بوٹیاں اور دوائیاں اِکٹھی کیں اور 1,400 سے بھی زیادہ طبی ادوِیات کا اپنی کتاب
میں ذِکر کیا اور اُن کا موازنہ اپنے سے قبل 150 دِیگر مصنفین کی تصنیفات سے بھی
کیا :
Ibn
al-Baytr wrote the Collection of Simple Drugs, which is regarded as the
greatest Arabic book on botany of the age. He collected plants, herbs and drugs
around the Mediterranean from Spain to Syria and described more than 1400
medicinal drugs, comparing them with the records of over 150 writers before
him.
اُس دَور کے عظیم مسلمان ادوِیہ سازوں
(pharmacologists) میں ابوبکر محمد بن زکریا رازی، علی
بن عباس، ابوالقاسم خلاف ابن عباس الزہراوی (جسے لاطینی زبان میں Albucasis کا نام
دیا گیا)، ابو مروان ابن ظہر (جسے لاطینی زبان میں Aben Bethar کا نام دیا گیا) کے نام بڑے
معروف ہیں۔
اِسی طرح medicine پر ابنِ رُشد
(Ibn Rushd) کی ’کتابُ الکلیات‘ ایک معرکہ آراء تصنیف
ہے، جسے لاطینی میں ترجمہ کر کے پورے عالمِ مغرب میں نصابی کتاب (textbook) کا
درجہ دیا گیا مگر اَفسوس کہ ترجمہ کے ذریعے اُس کا نام بدل کر colliget بن گیا،
جسے آج کوئی معلوم نہیں کر سکتا کہ یہ حقیقت میں کون سی کتاب تھی۔ (Islamic Science, p.181)
علمُ الجراحت (Surgery)
اندلس کے عظیم طبیب اور سرجن ابوالقاسم بن عباس الزہراوی کی نسبت
پروفیسر Hitti لکھتا ہے :
Albucasis
(1013 AD) was not only a physician but a surgeon of the first rank. He
performed the most difficult surgical operations in his own and the obstetrical
departments. The ample description he has left of the surgical instruments
employed his time gives an idea of the development of surgery among the Arabs
in lithotomy, he was equal to the foremost surgeons of modern times. His work
al-Tasrif li-Man Ajaz an al-Ta'alif (an aid to him who is not equal to the
large treatises) introduces or emphasises new ideas. It was translated into
Latin by Gerard of Cremona and various editions were published at Venice in
1497 AD, at Basle in 1541 AD and at Oxford in 1778 AD. It held its own for
centuries as the manual of surgery in Salerono, Montpellier and other early
schools of medicine."
(Hitti,
History of Arabs, pp.576-577)
ترجمہ ’’آپ نہ صرف ایک ماہر طبیب تھے بلکہ اوّل درجے کے عظیم سرجن
بھی تھے۔ اُنہوں نے اپنے شعبے میں اِنتہائی مشکل اور پیچیدہ سرجری (آپریشن) کئے
اور اُس کے ساتھ ہی ساتھ اُنہوں نے زچگی کے شعبے میں بھی آپریشن کئے اور اُنہوں نے
اپنے زیراستعمال آلاتِ سرجری کی بڑی واضح اور روشن وضاحت کی ہے، جس سے عربوں میں
سرجری کے فن کی ترقی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
Lithotomy میں وہ موجودہ دَور کے عظیم ترین سرجنوں کا ہم
پلہ تھے۔ اُن کا کام ’التصریف لِمن عجز عنِ التالیف‘ نئے تصوّرات کو متعارف کرواتا
ہے۔ اُس کا ترجمہ کریمونا
(Cremona) کے
Gerard نے کیا اور اُس کے مختلف ایڈیشن 1497ء میں وِینس
سے اور 1541ء میں باسلے اور 1778ء میں آکسفورڈ سے شائع ہوئے۔ اُنہوں نے اپنا مقام
و مرتبہ صدیوں تک سرجری کے علم میں برقرار رکھا اور طب کے اِبتدائی اَیام میں بھی
طبی سکولوں میں اچھے کام کے ساتھ متعارف رہے‘‘۔
سید حسین نصر نے ابنِ زہر کے مقام و مرتبہ کے بارے میں لکھا ہے :
Al-Zahrawi's
rank in the art of surgery was paralleled by that of Ibn Zuhr (Aven-Zoar) in
the science of medicine (1091-1162 AD). Of the six medical works written by
them three are extent. The most valuable is al-Taysir fil-Mudawat al-Tadbir (the
Facilitation of Therapy and Diet). Ibn Zuhr is hailed as the greatest physician
since Galen. At least he was the greatest clinician in Islam after al-Razi. Ibn
Zuhr wrote another book, Kitab al-Aghdhiyah (the Book of Diets) which is among
the best of its kind dealing with the subject.
(Islamic
Science, p.181)
ترجمہ : ’’ابنِ زہر کا مرتبہ ادوِیہ
(medicine) میں وُہی ہے جو الزہراوی کا سرجری (surgery) کے فن
میں تھا۔ جو چھ قسم کا کام اُنہوں نے ’ادوِیہ سازی‘ پر کیا اُن میں سے تین ابھی تک
جاری و ساری ہیں۔ سب سے گراں قدر کام ’خوراک اور غذائیت کی نشو ونما‘ ہے۔ گیلن کے
بعد ابنِ زہر کو سب سے بڑا طبیب تسلیم کیا جاتا ہے۔ کم از کم ’الرازی‘ کے بعد
دُنیائے اِسلام میں وہ سب سے بڑے مطب
(clinic) کے مالک تھے۔ ابنِ زہر نے ایک اور تصنیف ’کتاب
الاغذیہ‘ بھی ہے، جو اپنے موضوع کے اِعتبار سے اہم ترین کتب میں شمار ہوتی ہے‘‘۔
No comments:
Post a Comment