اسلام
اور جدید سائنس۔ پارٹ 6
اسلا م اور سائنس میں عدم مغایرت
اِسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہونے کے ساتھ ساتھ دینِ فطرت بھی ہے جو
اُن تمام اَحوال و تغیرات پر نظر رکھتا ہے جن کا تعلق اِنسان اور کائنات کے باطنی
اور خارجی وُجود کے ظہور سے ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اِسلام نے یونانی فلسفے
کے گرداب میں بھٹکنے والی اِنسانیت کو نورِ علم سے منوّر کرتے ہوئے جدید سائنس کی
بنیادیں فراہم کیں۔ قرآنِ مجید کا بنیادی موضوع ’’اِنسان‘‘ ہے، جسے سینکڑوں بار
اِس اَمر کی دعوت دی گئی ہے کہ وہ اپنے گرد و پیش وُقوع پذیر ہونے والے حالات و
واقعات اور حوادثِ عالم سے باخبر رہنے کے لئے غور و فکر اور تدبر و تفکر سے کام لے
اور اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ شعور اور قوتِ مُشاہدہ کو بروئے کار لائے تاکہ کائنات
کے مخفی و سربستہ راز اُس پر آشکار ہوسکیں۔
قرآنِ مجید نے بندۂ مومن کی بنیادی صفات و شرائط کے ضمن میں جو
اَوصاف ذِکر کئے ہیں اُن میں آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں تفکر (علمِ تخلیقیات (Cosmology) کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے۔
قرآ نِ حکیم نے آئیڈیل مسلمان کے اَوصاف بیان کرتے ہوئے اِرشاد
فرمایا :
إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّيْلِ
وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِّأُوْلِي الْأَلْبَابِO الَّذِينَ
يَذْكُرُونَ اللّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي
خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً
سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِO
(آل عمران، 3 : 190، 191)
بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردِش میں
عقلِ سلیم والوں کیلئے (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیںo یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا ادب بن کر) بیٹھے
اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروٹوں پر (بھی) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور
آسمانوں اور زمین کی تخلیق (میں کارفرما اُس کی عظمت اور حسن کے جلوؤں) میں فکر
کرتے رہتے ہیں۔ (پھر اُس کی معرفت سے لذّت آشنا ہوکر پکار اُٹھتے ہیں) اے ہمارے
رب! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا۔ تو (سب کوتاہیوں اور
مجبوریوں سے) پاک ہے، ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالےo
اِن آیاتِ طیبات میں بندۂ مومن کی جو شرائط پیش کی گئی ہیں اُن میں
جہاں کھڑے، بیٹھے اور لیٹے ہوئے زِندگی کے ہر حال میں اپنے مولا کی یاد اور اُس کے
حضور حاضری کے تصوّر کو جاگزیں کرنا مطلوب ہے، وہاں اِس برابر کی دُوسری شرط یہ
رکھی گئی ہے کہ بندۂ مومن آسمانوں اور زمین کی خِلقت کے باب میں غور و فکر کرے اور
یہ جاننے میں کوشاں ہو کہ اِس وُسعتِ اَفلاک کا نظام کن اُصول و ضوابط کے تحت
کارفرما ہے اور پھر پلٹ کر اپنی بے وُقعتی کا اَندازہ کرے۔ جب وہ اِس وسیع و عریض
کائنات میں اپنے مقام و مرتبہ کا تعین کرلے گا تو خودہی پکار اُٹھے گا : ’’اے میرے
ربّ! تو ہی میرا مولا ہے اور تو بے عیب ہے۔ حق یہی ہے کہ اِس وُسعتِ کائنات کو
تیری ہی قوت وُجود بخشے ہوئے ہے۔ اور تو نے یہ عالم بے تدبیر نہیں بنایا‘‘۔
مذکورہ بالا آیتِ کریمہ کے پہلے حصہ میں ’خالق‘ اور دُوسرے حصے میں
’خَلق‘ کی بات کی گئی ہے، یعنی پہلے حصے کا تعلق مذہب سے ہے اور دُوسرے کا براہِ
راست سائنس اور خاص طور پر علمِ تخلیقیات
(cosmology) سے ہے۔
مذہب اور سائنس میں تعلق
آج کا دَور سائنسی علوم کی معراج کا دَور ہے۔ سائنس کو بجا طور پر
عصری علم (contemporary knowledge) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لہٰذا دَورِحاضر میں دِین کی صحیح اور نتیجہ خیز
اِشاعت کا کام جدید سائنسی بنیادوں پر ہی بہتر طور پر سراَنجام دِیا جاسکتا ہے۔
بناء بریں اِس دَور میں اِس اَمر کی ضرورت گزشتہ صدیوں سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے کہ
مُسلم معاشروں میں جدید سائنسی علوم کی تروِیج کو فروغ دیا جائے اور دِینی تعلیم
کو سائنسی تعلیم سے مربوط کرتے ہوئے حقانیتِ اِسلام کا بول بالا کیا جائے۔ چنانچہ
آج کے مسلمان طالبِ علم کے لئے مذہب اور سائنس کے باہمی تعلق کو قرآن و سنت کی
روشنی میں سمجھنا از بس ضروری ہے۔
مذہب ’خالق‘ (Creator) سے بحث کرتا ہے اور سائنس اللہ تعالی کی پیدا کردہ ’خَلق‘ (creation) سے۔
دُوسرے لفظوں میں سائنس کا موضوع ’خَلق‘ اور مذہب کا موضوع ’خالق‘ ہے۔ یہ ایک
قرینِ فہم و دانش حقیقت ہے کہ اگر مخلوق پر تدبروتفکر اور سوچ بچار مثبت اور درُست
انداز میں کی جائے تو اُس مثبت تحقیق کے کمال کو پہنچنے پر لامحالہ اِنسان کو خالق
کی معرفت نصیب ہوگی اور وہ بے اِختیار پکار اُٹھے گا :
رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً.
(آل عمران، 3 : 191)
اے ہمارے رب! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا۔
بندۂ مومن کو سائنسی علوم کی ترغیب کے ضمن میں اللہ ربّ العزت نے
کلامِ مجید میں ایک اور مقام پر یوں اِرشاد فرمایا
:
سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّى
يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ.
(حم السجده، 41 : 53)
ہم عنقریب اُنہیں کائنات میں اور اُن کے اپنے (وُجود کے) اندر اپنی
نشانیاں دِکھائیں گے، یہاں تک کہ وہ جان لیں گے کہ وُہی حق ہے۔
اِس آیتِ کریمہ میں باری تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ ہم اِنسان کو اُس
کے وُجود کے اندر موجود داخلی نشانیاں
(internal signs) بھی دِکھا دیں گے اور کائنات میں جابجا
بکھری خارجی نشانیاں (external
signs) بھی دِکھا دیں گے، جنہیں دیکھ لینے کے بعد بندہ
خود بخود بے تاب ہوکر پکار اُٹھے گا کہ حق صرف اللہ ہی ہے۔
دَورِحاضر کا المیہ
قرآنِ مجید میں کم و بیش ہر جگہ مذہب اور سائنس کا اِکٹھا ذِکر ہے،
مگر یہ ہمارے دَور کا اَلمیہ ہے کہ مذہب اور سائنس دونوں کی سیادت و سربراہی ایک
دُوسرے سے ناآشنا اَفراد کے ہاتھوں میں ہے۔ چنانچہ دونوں گروہ اپنے مدِّ مقابل
دُوسرے علم سے دُوری کے باعث اُسے اپنا مخالف اور متضاد تصوّر کرنے لگے ہیں۔ جس سے
عامۃُ الناس کم علمی اور کم فہمی کی وجہ سے مذہب اور سائنس میں تضاد اور تخالف (conflict & contradiction) سمجھنے
لگتے ہیں، جبکہ حقیقت اِس کے بالکل برعکس ہے۔
مغربی تحقیقات اِس امر کا مسلّمہ طور پر اِقرار کرچکی ہیں کہ جدید
سائنس کی تمامتر ترقی کا اِنحصار قرونِ وُسطیٰ کے مسلمان سائنسدانوں کی فراہم کردہ
بنیادوں پر ہے۔ مسلمان سائنسدانوں کو سائنسی نہج پر کام کی ترغیب قرآن و سنت کی
اُن تعلیمات نے دی تھی جن میں سے کچھ کا تذکرہ گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے۔ اِسی
منشائے ربانی کی تکمیل میں مسلم سائنسدانوں نے ہر شعبۂ علم کو ترقی دی اور آج
اَغیار کے ہاتھوں وہ علوم اپنے نکتۂ کمال کو پہنچ چکے ہیں۔ شومئ قسمت کہ جن سائنسی
علوم و فنون کی تشکیل اور اُن کے فروغ کا حکم قرآن و حدیث میں جا بجا موجود ہے اور
جن کی اِمامت کا فریضہ ایک ہزار برس تک خود بغداد، رے، دِمشق، اسکندریہ اور اندلس
کے مسلمان سائنسدان سراَنجام دیتے چلے آئے ہیں، آج قرآن و سنت کے نام لیوا طبقِ
ارضی پر بکھرے اَرب بھر مسلمانوں میں سے ایک بڑی تِعداد اُسے اِسلام سے جدا سمجھ
کر اپنی ’تجدّد پسندی‘ کا ثبوت دیتے نہیں شرماتی۔ سائنسی علوم کا وہ پودا جسے
ہمارے ہی اَجداد نے قرآنی علوم کی روشنی میں پروان چڑھایا تھا، آج اَغیار اُس کے
پھل سے محظوظ ہو رہے ہیں اور ہم اپنی اصل تعلیمات سے رُوگرداں ہوکر دیارِ مغرب سے
اُنہی علوم کی بھیک مانگ رہے ہیں۔
آج ایک طبقہ اگر اِسلام سے اِس حد تک رُوگرداں ہے تو دُوسرا نام
نہاد ’مذہبی طبقہ‘ سائنسی علوم کو اَجنبی نظریات کی پیداوار قرار دے کر اُن کے
حصول کی راہ میں سب سے بڑی رُکاوٹ بنا ہوا ہے۔ مذہبی و سائنسی علوم میں مغایرت کا
یہ تصوّر قوم کو دو واضح حصوں میں تقسیم کر چکا ہے۔ نسلِ نو اپنے اَجداد کے سائنسی
کارہائے نمایاں کی پیروِی کرنے یا کم از کم اُن پر فخر کرنے کی بجائے زوال و مسکنت
کے باعث اپنے علمی، تاریخی اور سائنسی وِرثے سے اِس قدر لاتعلق ہوگئی ہے کہ خود اُنہی
کو اِسلام اور سائنس میں عدم مغایرت پر قائل کرنے کی ضرورت پیش آ رہی ہے۔
مذہب اور سائنس میں عدمِ تضاد
سائنس اور اِسلام میں تضاد کیونکر ممکن ہے جبکہ اِسلام خود سائنس
کی ترغیب دے رہا ہے! بنا بریں اِسلامی علوم کل ہیں اور سائنسی علوم محض اُن کا ایک
جزو۔ جزو اور کل میں مغایرت (conflict) ناممکن ہے۔ مذہب اور سائنس پر اپنی اپنی سطح پر تحقیقات کرنے
والے دُنیا بھر کے محققین کے لئے یہ ایک عالمگیر چیلنج ہے کہ مذہب اور سائنس میں
کوئی تضاد نہیں۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مذہب اور سائنس میں تضاد ہے تو اُس کے
ساتھ دو میں سے یقینا ایک بات ہوگی، ایک اِمکان تو یہ ہے کہ وہ مذہب کی صحیح سمجھ
سے عاری ہو گا بصورتِ دیگر اُس نے سائنس کو صحیح طور پر نہیں سمجھا ہو گا۔ یہ بھی
ممکن ہے کہ جس نکتے پر اُسے تضاد نظر آرہا ہو مطالعہ میں کمی کے باعث وہ نکتہ اُس
پر صحیح طور پر واضح نہ ہو سکا ہو۔ اگر کسی معاملے کو صحیح طور پر ہر پہلو سے جانچ
پرکھ کر سمجھ لیا جائے تو بندہ از خود یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ مذہب
اور سائنس میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ اِسلام کی رُو سے مذہب اور سائنس دونوں دینِ
مبین کا حصہ ہیں۔
سائنس کا دائرۂ کار مُشاہداتی اور تجرباتی علوم پر منحصر ہے جبکہ
مذہب اَخلاقی و رُوحانی اور ما بعد الطبیعیاتی اُمور سے متعلق ہے۔ اَب ہم مذہب اور
سائنس میں عدمِ تضاد کے حوالے سے تین اہم دلائل ذِکر کرتے ہیں :
1۔ بنیاد میں فرق
مذہب اور سائنس میں عدمِ تضاد کی بڑی اہم وجہ یہ ہے کہ دونوں کی
بنیادیں ہی جدا جدا ہیں۔ دَرحقیقت سائنس کا موضوع ’علم‘ ہے جبکہ مذہب کا موضوع
’ایمان‘ ہے۔ علم ایک ظنّی شے ہے، اِسی بناء پر اُس میں غلطی کا اِمکان پایا جاتا
ہے، بلکہ سائنس کی تمام پیش رفت ہی اِقدام و خطاء
(trial & error) کی طوِیل جِدّوجُہد سے عبارت ہے۔
جبکہ دُوسری طرف اِیمان کی بنیاد ظن کی بجائے یقین پر ہے، اِس لئے اُس میں خطا کا
کوئی اِمکان موجود نہیں۔
اِیمان کے ضمن میں سورۂ بقرہ میں اِرشادِ ربانی ہے :
الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ.
(البقره، 2 : 3)
جو غیب پر اِیمان لاتے ہیں۔
گویا اِیمان جو کہ مذہب کی بنیاد ہے، مُشاہدے اور تجربے کی بناء پر
نہیں بلکہ وہ بغیر مُشاہدہ کے نصیب ہوتا ہے۔ اِیمان ہے ہی اُن حقائق کو قبول کرنے
کا نام جو مُشاہدے میں نہیں آتے اور پردۂ غیب میں رہتے ہیں۔ وہ ہمیں اپنے خودساختہ
ذرائعِ علم سے معلوم نہیں ہوسکتے بلکہ اُنہیں مشاہدے اور تجربے کے بغیر محض اللہ
اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتانے سے مانا جاتا ہے، مذہب کی بنیاد
اِن حقائق پر ہے۔ اِس کے مقابلے میں جو چیزیں ہمیں نظرآرہی ہیں، جن کے بارے میں حقائق
اور مُشاہدات آئے دِن ہمارے تجربے میں آتے رہتے ہیں، اُن حقائق کا علم سائنس
کہلاتا ہے۔ چنانچہ سائنس اِنسانی اِستعداد سے تشکیل پانے والا علم (human acquired wisdom) ہے، جبکہ مذہب
خدا کی طرف سے عطاکردہ علم
(God-gifted wisdom) ہے۔ اِسی لئے سائنس کا سارا علم
اِمکانات پر مبنی ہے، جبکہ مذہب میں کوئی اِمکانات نہیں بلکہ وہ سراسر قطعیات پر
مبنی ہے۔ مذہب کے تمام حقائق وُثوق اور حتمیت (certainty & finality) پر مبنی
ہیں، یعنی مذہب کی ہر بات حتمی اور اَمرِ واجب ہے، جبکہ سائنس کی بنیاد اور نکتۂ
آغاز ہی مفروضوں (hypothesis) پر ہے۔ اِسی لئے سائنس میں درجۂ اِمکان (degree of probability) بہت زیادہ ہوتا
ہے۔ مفروضہ، مشاہدہ اور تجربہ کے مختلف مراحل میں سے گزر کر کوئی چیز قانون (law) بنتی ہے اور
تب جاکر اُس کا علم ’حقیقت‘ کے زُمرے میں آتا ہے، سائنسی تحقیقات کی جملہ پیش رفت
میں حقیقی صورتحال یہ ہے کہ جن حقائق کو ہم بارہا اپنی عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کے
بعد سائنسی قوانین قرار دیتے ہیں اُن میں بھی اکثر ردّ و بدل ہوتا رہتا ہے۔ چنانچہ
اِس بہت بڑے فرق کی بنیاد پر ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ مذہب اور سائنس میں
ٹکراؤ کا اِمکان ہی خارِج اَز بحث ہے۔
2۔ دائرۂ کار میں
فرق
مذہب اور سائنس میں کسی قسم کے تضاد کے نہ پائے جانے کا دُوسرا بڑا
سبب دونوں کے دائرۂ کار کا مختلف ہونا ہے، جس کے باعث دونوں میں تصادُم اور ٹکراؤ
کا کوئی اِمکان کبھی پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ اِس کی مثال یوں ہے جیسے ایک ہی سڑک پر
چلنے والی دو کاریں آمنے سامنے آرہی ہوں تو وہ آپس میں ٹکراسکتی ہیں، اِسی طرح عین
ممکن ہے کہ سٹیشن ماسٹر کی غلطی سے دو ریل گاڑیاں آپس میں ٹکرا جائیں لیکن یہ ممکن
نہیں کہ کار اور ہوائی جہاز یا کار اور بحری جہاز آپس میں ٹکرا جائیں۔ اَیسا اِس
لئے ممکن نہیں کہ دونوں کے سفر کے راستے الگ الگ ہیں۔ کار نے سڑک پر چلنا ہے، بحری
جہاز نے سمندر میں اور ہوائی جہاز نے ہوا میں۔ جس طرح سڑک اور سمندر میں چلنے والی
سواریاں کبھی آپس میں ٹکرا نہیں سکتیں اِسی طرح مذہب اور سائنس میں بھی کسی قسم کا
ٹکراؤ ممکن نہیں، کیونکہ سائنس کا تعلق طبیعیاتی کائنات
(physical world) سے ہے جبکہ مذہب کا تعلق مابعد
الطبیعیات (meta physical
world) سے ہے۔ اِس بات کو دُوسرے لفظوں میں یوں بھی
سمجھا جاسکتا ہے کہ سائنس فطرت
(nature) سے بحث کرتی ہے جبکہ مذہب کی بحث مافوق الفطرت (supernature) دُنیا
سے ہے، لہٰذا اِن دونوں میں سکوپ کے اِختلاف کی بناء پر اِن میں کسی صورت بھی تضاد
ممکن نہیں ہے۔
3۔ اِقدام و خطاء کا
فرق
اِس ضمن میں تیسری دلیل بھی نہایت اہم ہے، اور وہ یہ کہ خالقِ
کائنات نے اِس کائناتِ ہست و بُود میں کئی نظام بنائے ہیں، جو اپنے اپنے طور پر
اپنی خصوصیات کے ساتھ روَاں دوَاں ہیں۔ مثلاً اِنسانی کائنات، حیوانی کائنات،
جماداتی کائنات، نباتاتی کائنات، ماحولیاتی کائنات، فضائی کائنات اور آسمانی
کائنات وغیرہ۔ اِن تمام نظاموں کے بارے میں ممکنُ الحصول حقائق جمع کرنا سائنس کا
مطمحِ نظر ہے۔ دُوسری طرف مذہب یہ بتاتا ہے کہ یہ ساری اشیاء اﷲ تعالیٰ نے پیدا کی
ہیں۔ چنانچہ سائنس کی یہ ذِمہ داری ہے کہ اللہ ربّ العزت کے پیداکردہ عوالم اور
اُن کے اندر جاری و ساری عوامل
(functions) کا بنظرِ غائر مطالعہ کرے اور کائنات میں
پوشیدہ مختلف سائنسی حقائق کو بنی نوع اِنسان کی فلاح کے لئے سامنے لائے۔
اللہ ربّ العزت کی تخلیق کردہ اِس کائنات میں غوروفکر کے دَوران
ایک سائنسدان کو بارہا اِقدام و خطاء
(trial & error) کی حالت سے گزرنا پڑتا ہے۔ بار ہا
ایسا ہوتا ہے کہ ایک دفعہ کی تحقیق سے کسی چیز کو سائنسی اِصطلاح میں ’حقیقت‘ کا
نام دے دِیا جاتا ہے مگر مزید تحقیق سے پہلی تحقیق میں واقع خطا ظاہر ہونے پر اُسے
ردّ کر تے ہوئے نئی تحقیق کو ایک وقت تک کیلئے حتمی قرار دے دیا جاتا ہے۔ سائنسی
طریقِ کار میں اگرچہ ایک ’مفروضے‘ کو مسلّمہ ’نظرئیے‘ تک کا درجہ دے دیا جاتا ہے،
تاہم سائنسی طریقِ تحقیق میں کسی نظرئیے کو بھی ہمیشہ کیلئے حقیقت کی حتمی شکل
قرار نہیں دیا جاسکتا۔ سائنس کی دُنیا میں کوئی نظریہ جامد (unchangeable) اور مطلق (absolute) نہیں
ہوتا، ممکنہ تبدیلیوں کا اِمکان بہرحال موجود رہتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ نئے
تجربات کی روشنی میں صدیوں سے مسلّمہ کسی نظرئیے کو مکمل طور پر مستردّ کردیا
جائے۔
مذہب اِقدام و خطاء سے مکمل طور پر آزاد ہے کیونکہ اُس کا تعلق
اللہ ربّ العزت کے عطا کردہ علم سے ہوتا ہے، جو حتمی، قطعی اور غیر متبدّل ہے اور
اُس میں خطاء کا کلیتاً کوئی اِمکان نہیں ہوتا۔ جبکہ سائنسی علوم کی تمام تر
تحقیقات اِقدام و خطا (trial & error) کے اُصول کے مطابق جاری ہیں۔ ایک وقت تک جو اشیاء حقائق کا درجہ رکھتی
تھیں موجودہ سائنس اُنہیں کلی طور پر باطل قرار دے کر نئے حقائق منظرِ عام پر لا
رہی ہے۔ یہ الگ بات کہ حقائق تک پہنچنے کی اِس کوشش میں بعض اَوقات سائنس غلطی کا
شکار بھی ہوجاتی ہے، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ سائنس کی بنیاد ہی سعی اور خطاء (trial & error) پر ہے جو مختلف مُشاہدات اور تجربات کے ذرِیعے حقائق تک رسائی کی کوشش
کرتی ہے۔
مذہب مابعدُ الطبیعیاتی
(metaphysical) حقائق سے آگہی کے ساتھ ساتھ ہمیں اِس
مادّی کائنات سے متعلق بھی بہت سی معلومات فراہم کرتا ہے، جن کی روشنی میں ہم
سائنسی علوم کے تحت اِس کائنات کو اپنے لئے بہتر اِستعمال میں لا سکتے ہیں۔
قرآنِ مجید میں اِرشا دِ باری تعالیٰ ہے
:
وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ.
(الجاثيه، 45 : 13)
اور اُس (اﷲ) نے سماوِی کائنات اور زمین میں جو کچھ ہے وہ سب
تمہارے لئے مسخر کردیا ہے۔
جہاں تک مذہب کا معاملہ تھا اُس نے تو ہمیں اِس حقیقت سے آگاہ کر
دِیا کہ زمین و آسمان میں جتنی کائنات بکھری ہوئی ہے سب اِنسان کے لئے مسخر کر دی
گئی ہے۔ اَب یہ اِنسان کا کام ہے کہ وہ سائنسی علوم کی بدولت کائنات کی ہر شے کو
اِنسانی فلاح کے نکتۂ نظر سے اپنے لئے بہتر سے بہتر اِستعمال میں لائے۔ اِسی طرح
ایک طرف ہمیں مذہب یہ بتاتا ہے کہ جملہ مخلوقات کی خِلقت پانی سے عمل میں آئی ہے
تو سائنس اور ٹیکنالوجی کی ذِمہ داری یہ رہنمائی کرنا ہے کہ بنی نوع اِنسان کو
پانی سے کس قدر فوائد بہم پہنچائے جاسکتے ہیں اور اُس کا طریقِ کار کیا ہو۔ چنانچہ
اِس ساری بحث سے ہم اِس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سائنس اور مذہب کہیں بھی اور کسی
درجے میں بھی ایک دُوسرے سے متصادِم نہیں ہیں۔
No comments:
Post a Comment