اسلام
اور جدید سائنس۔ پارٹ 3
قرونِ وُسطیٰ میں سائنسی علوم کا فروغ (حصہ اوّل)
تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے تاریخِ
اِنسانیت میں علم و فن، فکر و فلسفہ، سائنس و ٹیکنالوجی اور ثقافت کے نئے اسالیب
کا آغاز ہوا اور دُنیا علمی اور ثقافتی حوالے سے ایک نئے دَور میں داخل ہوئی۔ آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازِل ہونے والے صحیفۂ اِنقلاب نے اِنسانیت کو مذہبی
حقائق سمجھنے کے لئے تعقّل و تدبّر اور تفکّر و تعمق کی دعوت دی۔ اَفَلاَ
تَعْقِلُوْنَ (تم عقل سے کام کیوں نہیں لیتے؟)، اَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ (وہ غور و
فکر کیوں نہیں کرتے؟) اور اَلَّذِیْنَ یَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ
الْاَرْضِ (جو لوگ آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں غور و فکر کرتے ہیں) جیسے الفاظ
کے ذریعے اللہ ربّ العزت نے اپنے کلامِ برحق میں بار بار عقلِ اِنسانی کو جھنجھوڑا
اَور اِنسانی و کائناتی حقائق اور آفاقی نظام کو سمجھنے کی طرف متوجہ کیا۔ اِس طرح
مذہب اور فلسفہ و سائنس کی غیریت بلکہ تضاد و تصادُم کو ختم کر کے اِنسانی علم و
فکر کو وحدت اور ترقی کی راہ پر گامزن کر دیا گیا۔ تاجدارِ رحمت صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے اِس اِحسان کا بدلہ اِنسانیت رہتی دُنیا تک نہیں چکا سکتی۔ حقیقت تو
یہ ہے کہ آج تک دُنیا میں جس قدر علمی و فکری اور ثقافتی و سائنسی ترقی ہوئی ہے یا
ہوگی وہ سب دینِ اِسلام کے اِنقلاب آفریں پیغام کا نتیجہ ہے، جس کے ذرِیعے علم و
فکر اور تحقیق و جستجو کے نئے دَر وَا ہوئے۔ معلّمِ اِنسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی بِعثت سے قبل دُنیا میں علم، فلسفہ اور سائنس کی ترقی کا جو بھی معیار تھا
اُس کی بنیاد سقراط (Socrates)، اَفلاطون (Plato) اور اَرسطو (Aristotle) کے
دیئے گئے نظریات پر تھی۔ آمدِ دینِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قبل یونان (Greece) اور
اسکندریہ (Alexandria) کی سرزمین علم کی سرپرستی کرتی رہی تھیں۔ اُن مخصوص خطہ ہائے
زمین کے علاوہ دُنیا کا بیشتر حصہ جہالت کی تاریکی میں گم تھا۔ سرزمینِ عرب کا بھی
یہی حال تھا، جہاں کے لوگ اپنی جہالت اور جاہلیت پر فخر کرتے تھے۔ قدیم یونان،
اسکندریہ اور رُوما (اٹلی) میں علم اور تمدّن کی ترقی کا کوئی فائدہ اہلِ عرب کو
اِس لئے نہ تھا کہ اُن کے مابین زبانوں کا بہت فرق تھا۔ تاہم جاہلی عرب میں بعض
علوم و فنون کا اپنا رواج اور ماحول تھا۔ مختلف علمی و اَدبی میدانوں میں عربوں کا
اپنا مخصوص ذوق اور اُس کے اِظہار کا اپنا ایک مخصوص انداز ضرور تھا۔ ایسے حالات
میں قرآنِ مجید کی پہلی آیاتِ طیبات اِلٰہیات، اَخلاقیات، فلسفہ اور سائنس کا
پیغام لے کر نازل ہوئیں۔
اِرشادِ ربانی ہوا
:
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَO خَلَقَ الْإِنسَانَ
مِنْ عَلَقٍO اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُO
الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِO عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْO
(العلق، 96 : 1 - 5)
(اے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب کے نام سے (آغاز
کرتے ہوئے) پڑھئے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایاo اُس نے اِنسان کو (رحمِ مادر میں) جونک کی طرح معلّق وُجود سے پیدا کیاo
پڑھئے اور آپ کا ربّ بڑا ہی کریم ہےo جس نے قلم کے ذرِیعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایاo جس نے اِنسان کو (اس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ
نہیں جانتا تھاo
تاجدارِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازِل ہونے والی پہلی وحی
کی پہلی آیت نے اِسلامی ’اِلٰہیات‘ و ’اَخلاقیات‘ کی علمی بنیاد فراہم کی، دُوسری
آیت نے ’حیاتیات‘ اور ’جینیات‘ کی سائنسی اَساس بیان کی، تیسری آیت نے اِنسان کو
اِسلامی عقیدہ و فلسفۂ حیات کی طرف متوجہ کیا، چوتھی آیت نے فلسفۂ علم و تعلیم اور
ذرائعِ علم پر روشنی ڈالی اور پانچویں آیت نے علم و معرفت، فکر و فن اور فلسفہ و
سائنس کے تمام میدانوں میں تحقیق و جستجو کے دروازے کھول دیئے۔ حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے اپنی حیاتِ طیبہ میں علم و فن اور تعلیم و تعلم کی ایسی سرپرستی
فرمائی کہ اپنی جہالت پر فخر کرنے والی اُمیّ (اَن پڑھ) قوم تھوڑے ہی عرصہ میں
پوری دُنیا کے علوم و فنون کی اِمام و پیشوا بن گئی اور شرق سے غرب تک علم و
اَخلاق اور فلسفہ و سائنس کی روشنی پھیلانے لگی۔ وہ عرب قوم۔۔۔ جسے علم و سائنس کی
راہ پر ڈالنے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوۂ بدر کے کافر قیدیوں کے
لئے چار ہزار درہم زرِ فدیہ کی خطیر رقم چھوڑتے ہوئے دس دس مسلمان بچوں کو پڑھانے
کا فدیہ مقرر کر دِیا تھا۔۔۔ اِسلام کی اَوائل صدیوں کے اندر ہی پوری دُنیائے
اِنسانیت کی معلّم بن کر اُبھری۔ اور اُس نے سائنسی علوم کو اَیسی مضبوط بنیادیں فراہم
کیں جن کا لوہا آج بھی مانا جاتا ہے۔ اِس باب میں قرآن و سنت کی تعلیمات کا نمایاں
پہلو یہ ہے کہ اُس نے اِنسانی ذِہن کو اپنے وُجود اور نظامِ کائنات کے حقائق کو
سمجھنے کے لئے دعوتِ غور و فکر دی۔
کلامِ مجید میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے
:
سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّى
يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ.
(حم السجده، 41 : 53)
ہم عنقریب اُنہیں اپنی نشانیاں خارجی کائنات
(universal phenomenon) میں اور اُن کے وُجودوں (human world) کے
اند ر دِکھا دیں گے، حتی کہ اُن پر آشکار ہوجائے گا کہ اللہ ہی حق ہے۔
تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس جاہل بدوِی قوم کو
حقائق کے تجزیہ و تعلیل کا مزاج دیا، حقائقِ کائنات میں جستجو اور تحقیق کا ذَوق
دیا۔ کائنات کی تخلیق سے لے کر اُس کے اِختتام تک اور اِنسان کی تخلیق سے لے کر
اُس کی موت تک، پھر موت سے قیامت تک کے اَحوال پر غور و فکر کے لئے بھی بنیادی
مواد فراہم کیا۔ اِس طرح کائناتی اور اِنسانی علوم
(sciences) کی ترقی کی راہیں تسلسل کے ساتھ کھلتی ہی چلی
گئیں۔ چنانچہ اُمتِ مسلمہ میں علمی ذوق نے اِس حد تک فروغ پایا کہ حکم قرآنی
’’عَلَّمَ بِالْقَلَمِ‘‘ کا اِشارہ پاکر مسلم اہلِ علم نے ’’قلم‘‘ کی تاریخی تحقیق
کا بھی حق اَدا کردیا۔ یہاں تک کہ اِمام عبدالرحمن بن محمد بن علی الحنفی البسطامی
رحمۃ اللہ علیہ نے ابوالبشر سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر اپنے دَور تک قلم کے
جملہ مناہج و اَسالیب کی تاریخ پر ایک کتاب لکھی، جس کا نام ’’مباھجُ الاعلام فی
مناھجِ الاقلام‘‘ رکھا۔ اُس کتاب میں اُنہوں نے 150 سے زائد قلموں اور اُن کے
اَدوار و اَحوال کی تاریخ مرتب کی ہے۔ غالباً یہ دُنیا میں اپنی نوعیت کا ایک
منفرد کام ہے۔ اُس کا مخطوطہ یونیورسٹی آف لیڈن (ہالینڈ) میں محفوظ ہے۔ برائے
حوالہ ملاحظہ ہو :
Catalogue
of Arabic Manuscripts (xxi) Fasciule 2 by J. J. Witkam, (Leiden University
Press, Leiden, 1984)
عالمِ اِسلام میں تہذیب و ثقافت کا فروغ
اِبنِ حوقل نے بیان کیا ہے کہ قرونِ وُسطیٰ میں اِسلامی اور عرب
دُنیا میں شرحِ خواندگی اور تعلیم و تعلم
(education & literacy) کے شغل نے یہاں تک ترقی کی
کہ صرف سسلی (Sicily) جیسے ایک چھوٹے سے شہر میں 600 پرائمری سکول موجود تھے اور اُن
کی وُسعت کا یہ عالم تھا کہ ابو القاسم بلخی کی رِوایت کے مطابق 3,000 طلباء صرف
اُن کے اپنے اِنسٹیٹیوٹ میں زیرتعلیم تھے۔ اِسی طرح دِمشق (Damascus)، حلب (Halab)، بغداد (Baghdad)، موصل (Mosul)، مصر (Egypt)، بیتُ المقدس (Jerusalem)، بعلبک، قرطبہ (Cordoba)، نیشاپور اور خراسان
(Central Asia) وغیرہ بھی سکولوں، کالجوں اور
یونیورسٹیوں سے معمور تھے۔ ’جامعہ نظامیہ بغداد‘۔۔۔ جو پانچویں صدی سے نوی صدی
ہجری تک دُنیا کی عظیم ترین یونیورسٹی تھی۔۔۔ اُس میں ریگولر طلبہ کی تِعداد 6,000
رہتی تھی۔
دسویں صدی میں بقول اِمام نعیمی رحمۃ اللہ علیہ، صرف شہر دِمشق میں
فقہ و قانون (law and jurisprudence) کے کالجز اور جامعات کا عالم یہ تھا کہ 63 تعلیمی اِدارے فقہ شافعی کے
تھے، 52 فقہ حنفی کے، 11 فقہ حنبلی کے اور 4 فقہ مالکی کے تھے۔ اِس کے علاوہ علمُ
الطب (medical sciences) کے سکول اور کالج الگ تھے۔
اِمام ابنِ کثیر رحمۃ اللہ علیہ تاریخ پر اپنی کتاب ’البدایہ
والنہایہ‘ میں سن 631ھ کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ اُس سال ’مدرسہ مستنصریہ‘ کی تعمیر
مکمل ہوئی، جو اُس وقت کی قانون کی سب سے بڑی درسگاہ تھی۔ اُس میں چاروں فقہی و
قانونی مکاتبِ فکر کے 62، 62 ماہرین و متخصّصین فقہ و قانون کے شعبوں میں تدرِیس
کے لئے تعینات تھے۔
اِسلامی تاریخ کا سب سے پہلا باقاعدہ ہسپتال اُموِی خلیفہ ’ولید بن
عبدالملک‘ (86ھ تا 96ھ) کے زمانے میں پہلی صدی ہجری میں ہی تعمیر ہوگیا تھا۔ اُس
سے قبل ڈسپنسریاں (dispensaries) موبائل
میڈیکل یونٹ (mobile medical
units) اور میڈیکل ایڈ سنٹرز (medical aid centres) وغیرہ موجود تھے،
جو عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں غزوۂ خندق کے موقع پر بھی مدینہ
طیبہ میں کام کر رہے تھے۔ اُس ہسپتال میں indoor patients کے باقاعدہ وارڈز تھے
اور ڈاکٹروں کو رہائش گاہوں کے علاوہ بڑی معقول تنخواہیں بھی دی جاتی تھیں۔
اِسلامی تاریخ کے اُس دورِ اوائل کے ہسپتالوں میں درج ذیل شعبہ جات
مستقل طور پر قائم ہوچکے تھے :
1-
Department of Systematic Diseases
2- Ophthalmic department
3- Surgical department
4- Orthopaedic department
5- Department of mental diseases
2- Ophthalmic department
3- Surgical department
4- Orthopaedic department
5- Department of mental diseases
اُن میں سے بعض بڑے ہسپتالوں کے ساتھ میڈیکل کالج(medical colleges) بھی متعلق کردیئے گئے
تھے, جہاں پوری دُنیا کے طلبہ
medical science کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ دِمشق کا ’نوری
ہسپتال‘ (Noorie Hospital) اور مصر کا ’ابنِ طولون ہسپتال‘ (Ibn-i-Tulun Hospital) اِس سلسلے میں
بڑے نمایاں تھے۔ ابنِ طولون میڈیکل کالج میں اِتنی عظیم لائبریری موجود تھی جو صرف medical sciences ہی
کی ایک لاکھ سے زائد کتابوں پر مشتمل تھی۔ ہسپتالوں کا نظام دَورِ جدید کے مغربی
ہسپتالوں کی طرح نہایت منظم اور جامع تھا اور یہ معیار دِمشق، بغداد، قاہرہ، بیتُ
المقدس، مکہ، مدینہ اور اندلس ہر جگہ برقرار رکھا گیا تھا۔ بغداد کا ’اَزدی ہسپتال‘ (Azdi Hospital) جو
371ھ میں تعمیر ہوا، دِمشق کا ’نوری ہسپتال‘ (Noorie Hospital)، مصر کا ’منصوری ہسپتال‘ (Mansuri Hospital) اور مراکش کا
’مراکو ہسپتال‘ (Moroccan
Hospital) اُس وقت دُنیا کے سب سے بڑے اور تمام ضروری
سہولتوں اور آلات سے لیس ہسپتال تھے۔
اِسلامی تعلیمات کی بدولت ملنے والی ترغیب سے مسلمان تو تعلیم اور
صحت کے میدانوں میں ترقی کی اِس اَوج پر فائز تھے جبکہ یورپ کے باسیوں کو پینے کا
صاف پانی بھی میسر نہ تھا۔ مسلمانوں کے علمی شغف کا یہ عالم تھا کہ اِسلامی دُنیا
کے ہر شہر میں پبلک اور پرائیویٹ لائبریریوں کی قابلِ رشک تعداد موجود تھی اور
بیشتر لائبریریاں لاکھوں کتابوں کا ذخیرہ رکھتی تھی۔ قرطبہ
(Cordoba)،
غرناطہ (Granada)، بغداد (Baghdad) اور طرابلس (Tarabulus) وغیرہ
کی لائبریریاں دُنیا کا عظیم تاریخی اور علمی سرمایہ تصوّر ہوتی تھیں۔
علوم القرآن (Quranic
Sciences)
قرآنِ مجید ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو ہمیں اِنسانی زِندگی کے ہر
گوشے سے متعلق ہدایت فراہم کرتا ہے۔ یہ ایک اَیسی کتابِ ہدایت ہے جس سے تمام علوم
کے سُوتے پھوٹتے ہیں۔ چنانچہ اَوائل دورِ اِسلام ہی سے قرآنِ مجید کو منبعِ علوم
تصوّر کرتے ہوئے اُس سے مستنبط ہونے والے علوم و فنون پر کام کیا گیا۔ قاضی ابو
بکر بن عربی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ’قانونُ التاوِیل‘ میں بیان کرتے ہیں کہ
قرآنی علوم کی تعداد 77,450 ہے۔ مسلمان اہلِ علم نے صرف مطالعۂ قرآن کے ذرِیعے جو
علمی و اَدبی اور سائنسی و سماجی علوم و فنون اَخذ کئے اُن میں سے چند ایک یہ ہیں :
علمُ التوحید (theology)
علمُ القراۃ والتجوید
(pronunciation)
علمُ النحو (grammer & syntax)
علمُ الصرف (morphology)
علمُ التفسیر (exegesis)
علمُ اللغہ (linguistics)
علمُ الاصول (science of fundamentals)
علمُ الفروع (science of branches)
علمُ الکلام (theology)
علمُ الفقہ والقانون (law & jurisprudence)
علمُ الفرائض والمیراث(law of inheritance)
علمُ الجریمہ (criminology)
علمُ الحرب (science of war)
علمُ التاریخ (history)
علمُ التزکیہ والتصوف (theosophy)
علمُ التعبیر (oneiromancy)
علمُ الادب (literature)
علمُ البلاغت، المعانی، البیان، البدیع (rhetoric)
علمُ الجبر و المقابلہ (algebra)
علمُ المناظرہ (polemics)
علمُ الفلسفہ (philosophy)
علمُ النفسیات (psychology)
علمُ الاَخلاق (ethics)
علمُ السیاسہ (political science)
علمُ المعاشرہ (sociology)
علمُ الثقافہ (culture)
علمُ الخطاطی (calligraphy)
علمُ المعیشت والاقتصاد(economics)
علمُ الکیمیا (chemistry)
علمُ الطبیعیات (physics)
علمُ الحیاتیات (biology)
علمُ النباتات (botany)
علمُ الزراعہ (agronomy)
علمُ الحیوانات (zoology)
علمُ الطب (medical science)
علمُ الادویہ (pharmacology)
علمُ الجنین (embryology)
علم تخلیقیات (cosmology)
علم کونیات (cosmogony)
علمُ الہیئت (astronomy)
علمِ جغرافیہ (geography)
علمُ الارضیات (geology)
علمُ الآثار (archaeology)
علمُ المیقات (timekeeping) وغیرہ
اِسی طرح اَحادیثِ نبوی سے بھی ہزارہا علوم و فنون کا اِستنباط کیا گیا اور اگلی صدیوں میں اُن پر تحقیق کے ذریعے ہزاروں کتب کا بیش بہا ذخیرہ مرتب ہوا۔
علمُ النحو (grammer & syntax)
علمُ الصرف (morphology)
علمُ التفسیر (exegesis)
علمُ اللغہ (linguistics)
علمُ الاصول (science of fundamentals)
علمُ الفروع (science of branches)
علمُ الکلام (theology)
علمُ الفقہ والقانون (law & jurisprudence)
علمُ الفرائض والمیراث(law of inheritance)
علمُ الجریمہ (criminology)
علمُ الحرب (science of war)
علمُ التاریخ (history)
علمُ التزکیہ والتصوف (theosophy)
علمُ التعبیر (oneiromancy)
علمُ الادب (literature)
علمُ البلاغت، المعانی، البیان، البدیع (rhetoric)
علمُ الجبر و المقابلہ (algebra)
علمُ المناظرہ (polemics)
علمُ الفلسفہ (philosophy)
علمُ النفسیات (psychology)
علمُ الاَخلاق (ethics)
علمُ السیاسہ (political science)
علمُ المعاشرہ (sociology)
علمُ الثقافہ (culture)
علمُ الخطاطی (calligraphy)
علمُ المعیشت والاقتصاد(economics)
علمُ الکیمیا (chemistry)
علمُ الطبیعیات (physics)
علمُ الحیاتیات (biology)
علمُ النباتات (botany)
علمُ الزراعہ (agronomy)
علمُ الحیوانات (zoology)
علمُ الطب (medical science)
علمُ الادویہ (pharmacology)
علمُ الجنین (embryology)
علم تخلیقیات (cosmology)
علم کونیات (cosmogony)
علمُ الہیئت (astronomy)
علمِ جغرافیہ (geography)
علمُ الارضیات (geology)
علمُ الآثار (archaeology)
علمُ المیقات (timekeeping) وغیرہ
اِسی طرح اَحادیثِ نبوی سے بھی ہزارہا علوم و فنون کا اِستنباط کیا گیا اور اگلی صدیوں میں اُن پر تحقیق کے ذریعے ہزاروں کتب کا بیش بہا ذخیرہ مرتب ہوا۔
اَب ہم اِسلامی تعلیمات کی روشنی میں چند سائنسی اور سماجی علوم و
فنون کے اِرتقاء میں ہونے والی پیش رفت کا باری باری جائزہ لیتے ہیں۔
علمِ ہیئت و فلکیات
(Astronomy)
علم ہیئت و فلکیات کے میدان میں مسلمان سائنسدانوں کی خدمات
ناقابلِ فراموش ہیں۔ اُنہوں نے یونانی فلسفے کے گرداب میں پھنسے علمُ الہیئت کو
صحیح معنوں میں سائنسی بنیادوں پر اُستوار کیا۔ مغربی زبانوں میں اَب بھی بے شمار
اَجرام سماوِی کے نام عربی میں ہیں، کیونکہ وہ مسلم ماہرینِ فلکیات کی دریافت ہیں۔
عظیم مغربی مؤرخ
Prof Hitti لکھتا ہے :
Not
only are most of the star۔۔۔ names in
European languages of Arabic origins۔۔۔
but a numbers of technical terms۔۔۔ are
likewise of Arabic etymology and testify to the rich legacy of Islam to
Christian Europe."
(History
of the Arabs, pp.568-573)
ترجمہ : ’’یورپ کی زبانوں میں نہ صرف بہت سے ستاروں کے نام عربی
الاصل (عربی زبان سے نکلنے والے) ہیں بلکہ لاتعداد اِصطلاحات بھی داخل کی گئی ہیں
جو یورپ پر اِسلام کی بھرپور وراثت کی مہرِ تصدیق ثبت کرتی ہیں‘‘۔
اندلس کے عظیم مسلمان سائنسدان ابنِ رشد۔۔۔ جسے مغرب میں Averroes کے بدلے ہوئے نام سے یاد کیا
جاتا ہے۔۔۔ نے سورج کی سطح کے دھبوں
(sun spots) کو پہچانا۔ Gregorian کیلنڈر کی اِصلاحات ’عمر
خیام‘ نے مرتب کیں۔ خلیفہ مامون الرشید کے زمانہ میں زمین کے محیط کی پیمائشیں عمل
میں آئیں، جن کے نتائج کی درُستگی آج کے ماہرین کے لئے بھی حیران کن ہے۔ سورج اور
چاند کی گردِش، سورج گرہن، علمُ المیقات (timekeeping) اور بہت سے سیاروں کے
بارے میں غیرمعمولی سائنسی معلومات بھی البتانی اور البیرونی جیسے نامور مسلم
سائنسدانوں نے فراہم کیں۔ مسلمانوں کی علمُ المیقات (timekeeping) کے میدان میں خصوصی
دِلچسپی کی وجہ یہ تھی کہ اِس علم کا تعلق براہِ راست نمازوں اور روزوں کے معاملات
سے تھا۔ یاد رہے کہ البتانی (877ء۔ 918ء) اور البیرونی (973ء۔ 1050ء) کا زمانہ صرف
تیسری اور چوتھی صدی ہجری کا ہے، گویا یہ کام بھی آج سے گیارہ سو سال قبل اِنجام
پذیر ہوئے۔
(History
of the Arabs, pp.373-378)
پنج وقتی نمازوں کے تعینِ اَوقات کی غرض سے ہر طول و عرض بلد پر
واقع شہروں کے لئے مقامی ماہرینِ تقوِیم و فلکیات نے الگ الگ کیلنڈرز وضع کئے۔
رمضانُ المبارک کے روزوں نے طلوع و غروبِ آفتاب کے اَوقات کے تعین کے لئے پوری
تقوِیم بنانے کی الگ سے ترغیب دی، جس سے بعداَزاں ہر طول بلد پر واقع شہر کے مطابق
الگ الگ کیلنڈرز اور پھر مشترکہ تقوِیمات کو فروغ ملا۔ یہاں تک کہ تیرہویں صدی
عیسوی میں باقاعدہ طور پر ’مؤقّت‘ کا عہدہ وُجود میں آگیا، جو ایک پیشہ ور
ماہرِفلکیات ہوتا تھا۔
مغرب کے دورِ جدید کی مشاہداتی فلکیات
(observational astronomy) میں اِستعمال ہونے والا لفظ almanac بھی عربی
الاصل ہے اِس کی عربی اصل ’المناخ‘ (موسم) ہے۔ یہ نظام بھی اصلاً مسلم سائنسدانوں
نے اِیجاد کیا تھا۔ ’شیخ عبدالرحمن الصوفی رحمۃ اللہ علیہ‘ نے اِس موضوع پر ایک
عظیم کتاب ’صورُالکواکب‘
(figures of the stars) کے نام سے تصنیف کی تھی، جو جدید
علمِ فلکیات کی بنیاد بنی۔ مستزاد یہ کہ اِس باب میں ’ابنُ الہیثم‘۔۔۔ جسے اہلِ
مغرب لاطینی زبان میں Alhazen لکھتے ہیں۔۔۔ کی خدمات بھی ناقابلِ فراموش سائنسی سرمایہ ہے۔
علمِ ہیئت و فلکیات (astronomy)
اور علمِ نجوم (astrology) کے ضمن میں اندلسی مسلمان
سائنسدانوں میں اگرچہ ’علی بن خلاف اندلسی‘ اور ’مظفرالدین طوسی‘ کی خدمات بڑی
تاریخی اہمیت کی حامل ہیں۔ مگر اُن سے بھی بہت پہلے تیسری صدی ہجری میں قرطبہ (Cordoba) کے عظیم
سائنسدان ’عباس بن فرناس‘ نے اپنے گھر میں ایک کمرہ تیار کر رکھا تھا جو دورِ جدید
کی سیارہ گاہ (Planetarium) کی بنیاد بنا۔ اُس میں ستارے، بادل اور بجلی کی گرج چمک جیسے
مظاہرِ فطرت کا بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا تھا۔ ’عباس بن فرناس‘ وہ عظیم سائنسدان
ہے جس نے دُنیا کا سب سے پہلا ہوائی جہاز بنا کر اُڑایا۔ بعد اَزاں البیرونی (al-Biruni) اور
ازرقیل (Azarquiel) وغیرہ نے
equatorial instruments کو وضع کیا اور ترقی دی۔ اِسی
طرح سمتِ قبلہ کے درُست تعین اور چاند اور سورج گرہن (lunar & solar eclipses) کو قبل
اَز وقت دریافت کرنے، حتیٰ کہ چاند کی گردِش کا مکمل حساب معلوم کرنے کا نظام بھی
البطانی، ابنِ یونس اور ازرقیل جیسے مسلم سائنسدانوں نے وضع کیا۔ اِس سلسلے میں
اُنہوں نے Toledan Astronomical
Tables مرتب کئے۔ چنانچہ بعض غیرمسلم مؤرخین نے اِس
حقیقت کا اِن اَلفاظ میں اِعتراف کیا ہے :
"Muslim
astrologers also discovered (around the thirteenth century) the system for
giving the ephemerids of the sun and the moon --- later extended to the other
planets --- as a function of concrete annual dates. Such was the origin of the
almanacs which were to be so widely used when trans-oceanic navigation
began."
(The
Legacy of Islam, pp. 474-482)
ترجمہ : ’’مسلمان ماہرینِ فلکیات نے بھی (تیرہویں صدی عیسوی کے
قریب) چاند اور سورج کو حرکت دینے والے نظام کو دریافت کیا اور بعد ازاں دُوسرے
سیاروں کے حوالے سے تحقیق شروع کی۔ طے شدہ سالانہ تاریخوں کے حساب سے اور اُن
تاریخوں کا رجسٹر کا آغاز کچھ ایسا تھا کہ اسے سمندر کو پار کرنے کے لئے جہازوں کی
رہنمائی میں بہت زیادہ اِستعمال میں لایا گیا‘‘۔
No comments:
Post a Comment