اسلام اور جدید سائنس۔ پارٹ 5
قرون وسطی میں سائنسی علوم کا فروغ. حصہ سوئم
علمِ اَمراضِ چشم
(Ophthalmology)
مسلم اَطباء نے اَمراضِ چشم کی دواسازی میں بھی بیش بہا علمی
اِضافے کئے۔ علی بن عیسیٰ نے اِنتہائی مشہور کتاب
Tadhkirat al-Kahhalin لکھی اور مؤخر الذکر نے صدیوں تک
ماہرینِ اَمراضِ چشم کی رہنمائی کی۔ علی بن عیسیٰ کی تصنیفات کو دُنیا میں ہر جگہ
پڑھایا گیا حتیٰ کہ Tractus de
Oculis Jesu ben Hali کے نام سے اُس کا لاطینی زبان میں
ترجمہ بھی ہوا۔ اَمراضِ چشم سے وابستہ ایسی بہت سی فنی اِصطلاحات لاطینی زبان کے
علاوہ دِیگر جدید یورپی زبانوں میں بھی اِستعمال ہو رہی ہیں، جن کا منبع عربی زبان
ہے۔ اس سے اُن موضوعات پر اِسلامی اَثرات کی بخوبی تصدیق ہوتی ہے۔
Muslim
physicians also added valuable knowledge to another branch of medicine, Ali ibn
Isa wrote the famous work, Tadhkirat al-Kahhalin (Treasury of Ophthalmologists)
and Abu Ruh Muhammad al-Jurani entitled Zarrindast (the Golden Hand) wrote Nur
al-Ain (the Light of the Eye). The last book has served practitioners of the
art for centuries. Ali ibn Isa's works were taught everywhere and even
translated into Latin as Tractus de Oculis Jesu ben Hali. Many of the technical
terms pertaining to ophthalmology in Latin as well as in some modern European
languages, are of Arabic origin, and attest to the influence of Islamic sources
on this subject.
(Islamic
Science, pp.166-167)
بیہوش کرنے کا نظام
(Anaesthesia)
علی بن عیسیٰ تاریخِ عالم میں پہلا سائنسدان تھا جس نے سرجری سے
پہلے مریض کو بے ہوش و بے حس کرنے کے طریقے تجویز کئے۔ اندلس کا نامور سرجن
ابوالقاسم الزہراوِی بھی آپریشن سے قبل مریض کو بے ہوشی کی دوا دینے سے بخوبی آگاہ
تھا۔ اُسی عہد میں تیونس میں ایک اور ماہر اِسحاق بن سلیمان الاسرائیلی منظرِ عام
پر آئے، جو اَمراضِ چشم کے ماہر تھے اور اُن کی تصنیفات کا ترجمہ بھی لاطینی اور
عبرانی زبانوں میں کیا گیا۔
Ali
ibn Isa was also the first person to propose the use of anaesthesia for
surgery. Another person appeared at this time in Tunis, Ishaq ibn Sulaiman
al-Israili, who practised ophthalmology and his works were also translated into
Latin and Hebrew languages.
(Islamic
Science, p.178)
علمُ الکیمیا (Chemistry)
اِسلام کی تاریخ میں علمُ الکیمیا کے باب میں خالد بن یزید رضی
اللہ عنہ (704ء) اور امام جعفرالصادق رضی اللہ عنہ (765ء) کی شخصیات بانی اور مؤسس
کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہیں۔ نامور مسلم سائنسدان ’جابر بن حیان‘ (776ء) اِمام
جعفرالصادق رضی اللہ عنہ ہی کا شاگرد تھا، جس نے کیمسٹری کی دُنیا میں اَنمٹ نقوش
چھوڑے۔ مفروضہ اور تصوّر (hypothesis &
speculation) کی بجائے اُنہوں نے تجزیاتی تجربیت (objective experimentation) کو رواج دیا اور اُن مسلم رہنماؤں کی بدولت ہی قدیم الکیمی (Alchemy) باقاعدہ
سائنس کا رُوپ دھار گئی۔
evaporation،
sublimation اور crystallization کے طریقوں کے موجد
’جابر بن حیان‘ ہی ہیں۔ اُن کی کتابیں بھی عرصۂ دراز تک یورپ کے کالجوں اور
یونیورسٹیوں میں شاملِ نصاب رہی ہیں۔ ’جابر بن حیان‘ اور اُن کے شاگردوں کی سائنسی
تصانیف The Jabirean Corpus کہلاتی ہیں۔ اُن میں کتابُ السبعین (The Seventy Books) اور کتابُ المیزان (The Book of Balance) وغیرہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ اُن کے علاوہ ’ابو مشعر‘، ’سہروردی‘،
’ابنِ عربی‘ اور ’الکاشانی‘ وغیرہ کا کام بھی کیمسٹری کی تاریخ کا عظیم سرمایہ ہے۔
یہ سب علمی اور سائنسی سرمایہ عربی زبان سے لاطینی اور پھر انگریزی میں منتقل کیا
گیا۔ چنانچہ زبانوں کی تبدیلی سے مسلم سائنسدانوں کے نام بھی بدلتے گئے۔ مثلاً
الرازی کو Rhazes، ابنِ سینا کو Avicenna، ابوالقاسم کو
Abucasis اور ابنُ الھیثم کو Alhazen بنا دیا گیا۔ اِسی طرح عربی
اِصطلاحات بھی تراجم کے ذرِیعے تبدیل ہو گئیں، نتیجتاً آج کا کوئی مسلمان یا مغربی
سائنسدان جب تاریخ میں اُن ناموں اور اصطلاحات کو پڑھتا ہے تو وہ یہ تصور بھی نہیں
کر سکتا کہ یہ سب اِسلامی تاریخ کا حصہ ہے اور یہ اَسماء عربیُ الاصل (Arabic origin) ہیں۔
اِن حقائق کو جاننے کے لئے مزید ملاحظہ فرمائیں :
1.
Prof. Hitti, History of the Arabs, pp.578-579 (London, 1974).
2. A and R. Kahane, The Krater and the Grail, Hermetic Sources of the Parzival, Urbana (Illinois, 1965).
3. Corbin, En Islamiranien vol.2, chap.4 (Paris, 1971).
4. F.a.Yates, Giordana Bruno and the Hermetic Tradition (London, 1964).
5. Syed Husain Nasir, Islamic Science (London, 1976).
6. George Sorton, An Introduction to the History of Science.
7. Briffault, The Making of Humanity.
8. Schaclt. J and Bosworth C.E. The Legacy of Islam (Oxford, 1947).
9. Watt-W.M. and Cachina P, A History of Islamic Spain (Edinlwrgh).
10. Robert Gulick L.Junior, Muhammad, The Educator (Lahore, 1969).
2. A and R. Kahane, The Krater and the Grail, Hermetic Sources of the Parzival, Urbana (Illinois, 1965).
3. Corbin, En Islamiranien vol.2, chap.4 (Paris, 1971).
4. F.a.Yates, Giordana Bruno and the Hermetic Tradition (London, 1964).
5. Syed Husain Nasir, Islamic Science (London, 1976).
6. George Sorton, An Introduction to the History of Science.
7. Briffault, The Making of Humanity.
8. Schaclt. J and Bosworth C.E. The Legacy of Islam (Oxford, 1947).
9. Watt-W.M. and Cachina P, A History of Islamic Spain (Edinlwrgh).
10. Robert Gulick L.Junior, Muhammad, The Educator (Lahore, 1969).
فنونِ لطیفہ (Fine Arts)
جہاں تک فنونِ لطیفہ کا تعلق ہے، قرآنِ مجید ہی کے شغف سے قرونِ
وُسطیٰ میں ’فنِ خطاطی‘ (calligraphy) کو
فروغ ملا۔ مساجد کی تعمیر سے ’فنِ تعمیر‘ (architecture) اور ’فن تزئین و آرائش‘ (decorative art) میں ترقی ہوئی۔ حرمِ کعبہ، مسجدِنبوی، بیتُ المقدس، سلیمانیہ اور دیگر
مساجدِ اِستنبول ترکی، تاج محل، قصرِخُلد (بغداد)، جامع قرطبہ، الحمراء اور قصرُ
الزہراء (اندلس) وغیرہ اِس فن کی عظیم تاریخی مثالیں ہیں۔
اندلس میں فنونِ لطیفہ کو تمام عالمِ اِسلام سے بڑھ کر تروِیج ملی
اور وہاں خطّاطی (calligraphy)، موسیقی (music)، تعمیر و تزئین(architecture
& decorative art)، مصوّری
(painting)،
فیشن اور دُوسرے بہت سے صنعتی فنون اپنے دَور کی مناسبت سے ترقی کی اَوجِ ثریا پر
فائز تھے۔ اندلس کی ثقافتی ترقی اور فنونِ لطیفہ کے اِرتقاء کا ذِکر متعلقہ باب
میں بالتفصیل ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
علمِ فقہ و قانون
(Law & Jurisprudence)
اِس باب میں اِمامِ اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 150ھ) نے
دُوسری صدی ہجری کے اَوائل میں ہی تاریخِ قانون میں اُن نادِر ذخائر کا اِضافہ کیا
جو صدیاں گزرنے کے باوُجود آج تک مینارۂ نور ہیں۔
1۔ آپ رحمۃ اللہ
علیہ کے تلامذہ میں سے بالخصوص اِمام محمد بن حسن شیبانی رحمۃ اللہ علیہ نے
’السیرالکبیر‘ اور ’السیرالصغیر‘ کی صورت میں public international law اور private international law پر اِما مِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی فرمودہ تصانیف مرتب کیں۔ جن
پر بعد ازاں اِمام سرخسی رحمۃ اللہ علیہ نے ’شرحُ السیر‘ کے نام سے چار جلدوں پر
مشتمل شرح لکھی، جو اپنے دَور میں آج کے strake اور oppeheim سے بہتر مجموعہ تھا۔ اِمام
سرخسی رحمۃ اللہ علیہ کی ہی 30 جلدوں پر مشتمل ضخیم کتاب ’المبسوط‘ قانون (law) پر آج سے
تقریباً ایک ہزار سال قبل کا لکھا ہوا ایک نادرُ المثال مجموعہ ہے۔ یہ
تاجدارِکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے عطا کردہ فیض کا کارنامہ تھا کہ
عالمِ اِسلام اُس دَور میں قانون پر ایسی کتب مہیا کر رہا تھا، جبکہ باقی پوری
دُنیا جہالت کے اَٹاٹوپ اندھیروں میں گم تھی۔ آج مغرب کی علمی تاریخ میں اُس دَور
کو dark ages کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، جبکہ اہلِ اِسلام کے ہاں وہ دَور علوم و فنون
کی روشنی سے درخشاں و منوّر تھا۔
2۔ بین الاقوامی
قانون پر اِمام زید بن علی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 120ھ) کی کتاب ’المجموع‘ میں بھی
مفصل باب شامل تھا۔ اِمام مالک رحمۃ اللہ علیہ، اِمام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ،
اِمام محمد رحمۃ اللہ علیہ، اِمام اَوزاعی رحمۃ اللہ علیہ، اِمام شافعی رحمۃ اللہ
علیہ اور دیگر ائمہ فقہ و قانون نے بھی اِس موضوع پر بھرپور مواد فراہم کیا، جو
علمی و قانونی تاریخ کا بیش بہا سرمایہ ہے۔
3۔ comparative case law، جو دورِ جدید کا ایک نہایت اہم قانونی
فن اور علمی موضوع ہے، اُس پر دُوسری صدی ہجری میں ہی باضابطہ کام شروع ہو گیا
تھا۔ دبوسی، ابنِ رُشد، شاطبی اور سیموری وغیرہ کی تصانیف اِس فن کے اَعلیٰ پایہ
کے نمونے ہیں۔
4۔ علمِ دستور (constitutional law) پر دُنیا کی سب سے پہلی باضابطہ دستاویز خود حضور سرورِکائنات صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کا تیارہ کردہ ’’میثاقِ مدینہ‘‘ (The Pact of Madina) ہے، جو 63 دفعات (articals) پر
مشتمل ہے۔ یہ آئینی و دستوری دستاویز ابنِ ہشام رحمۃ اللہ علیہ، ابنِ اِسحاق رحمۃ
اللہ علیہ، ابو عبید رحمۃ اللہ علیہ، ابنِ سعد رحمۃ اللہ علیہ، ابنِ کثیر رحمۃ
اللہ علیہ اور ابنِ اَبی خثیمہ رحمۃ اللہ علیہ کے ذرِیعے کامل شکل میں ہم تک
پہنچی۔ جدید مغربی دُنیا کا آئینی و دستوری سفر 1215ء میں اُس وقت شروع ہوا جب
شاہِ انگلستان King John نے ’محضّرکبیر‘
(Magna Carta) پر دستخط کئے، جبکہ اُس سے 593 سال قبل
ہجرت کے پہلے سال 622ء میں ریاستِ مدینہ میں حضور نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی طرف سے اِنسانیت کو معاشی و سماجی عدل اور مساوات پر مُشتمل ایک جامع
تحریری دستور دیا جا چکا تھا۔ یہ دُنیا کا سب سے پہلا تحریری آئین (written constitution) ہے، جس سے قبل تاریخِ عالم میں باقاعدہ اور باضابطہ ریاستی دستور کے تحریر
کئے جانے کی ایک مثال بھی نہیں ملتی۔ یہ تاریخِ علم و قانون اور تاریخِ سیاسیات
میں حضور نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پہلا کارنامہ ہے۔ اُس سے پہلے شہری
ریاستوں اور ہندوستان کے دساتیر سمیت منوسمرتی (500 ق م)، آرتھ شاستر (300 ق م)
اور ارسطو (322ق م) کی تصانیف میں جو کچھ ملتا ہے وہ سب پند و نصائح پر مشتمل درسی
اور تعلیمی نوعیت کا کام ہے۔ ارسطو کا ’شہر ایتھنز کا دستور‘ (Athenian Constitution) جو گزشتہ صدی
میں مصر سے دریافت ہوا اور 1891ء میں شائع ہوا، وہ بھی اِسی نوعیت کا کام ہے جو
مسلمانوں کے ہاں ’نصیحتُ الملوک‘ جیسی کتابوں میں عام پایا جاتا ہے، جن میں کسی
ریاست کا نظام چلانے کے سلسلے میں بادشاہوں کے لئے پندونصائح شامل ہیں۔ کسی
سربراہِ ریاست یا حکومت کی طرف سے ارسطو کی یہ دستاویزات باقاعدہ دستور کے طور پر
نافذ ہوئیں اور نہ ہی وہ اِس نوعیت کے دستاویز تھیں کہ اُنہیں نافذ کیا جاتا۔ یہ
شان سب سے پہلے ’’میثاقِ مدینہ‘‘ کو حاصل ہوئی اور یہ اَمر سیرتِ محمدی صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کا ایک درخشندہ تاریخی باب ہے۔
تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے دستوری و آئینی
کام کے باضابطہ آغاز کے بعد اِس موضوع پر الماوردی رحمۃ اللہ علیہ اور ابوعلی رحمۃ
اللہ علیہ کی ’الاحکام السلطانیہ‘، غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی ’نصیحۃُ الملوک‘،
طرطوسی رحمۃ اللہ علیہ کی ’سراجُ الملوک‘ اور الفارابی رحمۃ اللہ علیہ کی ’المدینہ
الفاضلہ‘ جیسی درسی کتب بھی معرضِ وُجود میں آئیں۔ الغرض مسلمانوں کی دستوری و
آئینی خدمات میں سے سب سے اہم خدمت یہ ہے کہ اُنہوں نے ریاست کے تین اہم اعضاء
مقننہ (legislature)، اِنتظامیہ (executive) اور عدلیہ (judiciary) کو
الگ الگ تشخص دیا۔ اُنہیں عہدِ خلافتِ راشدہ میں ہی ’اہل الحل والعقد‘، ’اُولی
الامر‘ اور ’القضا‘ کے مستقل نام دے دیئے گئے تھے اور اُن کے دائرہ ہائے کار بھی
متعین کر دیئے گئے تھے، جبکہ مغربی علمِِ دستور میں اُن کا تصوّر بہت بعد میں فروغ
پذیر ہوا۔
5۔ Common law پر
باقاعدہ فقہی و قانونی مجموعات
(juristic & legal codes) بھی اِسلام کی دُوسری صدی
کے اَوائل میں مرتب ہونا شروع ہو گئے تھے۔ جنہیں باقاعدہ حصص اور اَبواب (parts & chapters) میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ عبادات (religious laws)، مناکحات
(family laws)،
معاملات و معاہدات (civil &
contractual laws)،
عقوبات (penal laws)، مالیات (fiscal laws) اور
قضا و شہادات (procedural &
evidence laws) وغیرہ کی باقاعدہ قانونی تقسیم بھی
تاریخِ اِسلام کی پہلی صدی میں ہی عمل میں آچکی تھی۔ یہ سب وہ علمی نظم تھا جو
مسلمانوں کو اَوائلِ اِسلام سے ہی قرآنِ مجید کی تعلیمات اور حضور نبئ اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتِ مبارکہ کے ذریعے میسر آگیا تھا، جبکہ اُس وقت مغربی
دُنیا بنیادی حقوق انسانی اور علم و آگہی کے تصوّر سے ہی یکسر محروم تھی۔
اِمام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی کتب ’ظاہرالروایہ‘ جنہیں اُن کے
شاگرد اِمام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے مرتب کیا، اُن کے علاوہ اِمام مالک رحمۃ اللہ
علیہ کی ’الموطا‘، اِمام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ’کتابُ الام‘ اور دیگر ائمہ کی
تصانیف کے ذریعے فقہ و قانون کا عظیم سرمایہ معرضِ وُجود میں آگیا تھا۔ بعد اَزاں
’’فقہ حنفی‘‘ میں سرخسی رحمۃ اللہ علیہ کی ’المبسوط‘، مرغینانی رحمۃ اللہ علیہ کی
’الھدایہ‘، ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ کی ’فتح القدیر‘، کاسانی رحمۃ اللہ علیہ کی
’بدائع الصنائع‘ وغیرہ، ’’فقہ مالکی‘‘ میں ابنِ سحنون رحمۃ اللہ علیہ کی ’المدوّنۃ
الکبریٰ‘، ابنِ جزی رحمۃ اللہ علیہ کی ’القوانین الفقیہ‘، ابنِ فرحون رحمۃ اللہ
علیہ کی ’تبصرۃُ الحکام‘، الخطاب رحمۃ اللہ علیہ اور خرشی رحمۃ اللہ علیہ کی شرح
’المختصر‘ وغیرہ، ’’فقہ شافعی‘‘ میں نووی رحمۃ اللہ علیہ کی ’المجموع‘، غزالی رحمۃ
اللہ علیہ کی ’الوجیز‘، بصیر رحمۃ اللہ علیہ کی ’النہایہ‘ وغیرہ، ’’فقہ حنبلی‘‘
میں ابنِ قدامہ رحمۃ اللہ علیہ کی ’کتابُ المغنی‘ اور ابنِ القیم رحمۃ اللہ علیہ
کی ’اعلام الموقعین عن رب العالمین‘، ابنِ حزم رحمۃ اللہ علیہ کی ’المحلی‘ اور
القرافی رحمۃ اللہ علیہ کی ’الفروق‘ وغیرہ، ’’فقہ جعفریہ‘‘ میں الحلی رحمۃ اللہ
علیہ کی ’شرائع الاسلام‘ جواد مغنیہ رحمۃ اللہ علیہ کی ’فقہ الامام جعفر الصادق‘
وغیرہ اور ’الفقہ علی المذاہب الاربعہ‘ (الجزیری) جیسی کتب مرتب ہوتی رہی ہیں۔ Case law پر فتاویٰ اور شرعی فیصلہ جات (judicial decisions) کے ’فتاویٰ قاضی خان‘، ’فتاویٰ بزازیہ‘، ’فتاویٰ ابنِ تیمیہ‘، ’فتاویٰ
اِمام نووِی‘، ’فتاویٰ اِمام سبکی‘ اور ’فتاویٰ الہندیہ‘ جیسے مجموعات مرتب ہوئے۔
6۔ fiscal & taxation law اور
administrative law میں اِمام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ
اور یحییٰ بن آدم رحمۃ اللہ علیہ کی ’کتابُ الخراج‘ اور ابو عبید قاسم بن سلام
رحمۃ اللہ علیہ کی ’کتابُ الاموال‘ اوائل دَور کے بہترین علمی شہ پارے ہیں۔
علم تاریخ اور عمرانیات
(Historiography & Sociology)
اِن علوم میں بھی اِسلام کی اِبتدائی صدیوں میں گرانقدر سرمایہ جمع
کیا گیا، جس کے ذریعے نہ صرف سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلکہ دس ہزار سے
زائد صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے حالات و سوانح بھی پوری تحقیق کے بعد مرتب ہوئے۔
تاریخِ اِسلام میں اِس علم کو ’اَسماءُ الرِجال‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے، جس کے
تحت محققین نے 5 لاکھ سے زیادہ صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور دِیگر رُواۃِ حدیث
کے اَحوالِ حیات مرتب کئے۔ یہ فن اپنی نوعیت میں منفرد ہے جو دُنیا کی کسی قوم اور
مذہب میں تھا اور نہ ہے۔ ابنِ اِسحاق رحمۃ اللہ علیہ، جنہوں نے عہدِ حضرت آدم علیہ
السلام سے عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پوری اِنسانی تاریخ مرتب کی،
اِسلام کے عظیم اوّلیں مورخین میں سے ہیں۔ اِسی طرح ابنِ ہشام رحمۃ اللہ علیہ،
طبری رحمۃ اللہ علیہ، مسعودی رحمۃ اللہ علیہ، مسکویہ حلبی رحمۃ اللہ علیہ، اندلسی
رحمۃ اللہ علیہ، ابنِ خلدون رحمۃ اللہ علیہ، دیار بکری رحمۃ اللہ علیہ، یعقوبی
رحمۃ اللہ علیہ، بلاذری رحمۃ اللہ علیہ، ابنُ الاثیر رحمۃ اللہ علیہ، ابنِ کثیر
رحمۃ اللہ علیہ، سہیلی رحمۃ اللہ علیہ، ابنِ سیدُالناس رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے
کام بھی تاریخی اہمیت کے حامل ہیں، جبکہ
political thought اور sociology میں غزالی رحمۃ اللہ علیہ،
فارابی رحمۃ اللہ علیہ، ماوردی رحمۃ اللہ علیہ، ابنِ خلدون رحمۃ اللہ علیہ، ابنِ
رُشد رحمۃ اللہ علیہ، ابنِ تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ، ابنُ القیم رحمۃ اللہ علیہ اور
شاہ ولی اللہ محدّث دِہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی تالیفات نہایت اہم ہیں۔
جغرافیہ اور مواصلات
(Geography & Communications)
اِسلامی عہد کے عروج کے موقع پر علمِ جغرافیہ میں بھی خوب ترقی
ہوئی۔ بلاذری رحمۃ اللہ علیہ اور ابنِ جوزی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ عہدِ
فاروقی میں ہی خلافتِ اِسلامیہ کی ڈاک ہر وقت ’ترکستان‘
(Central Asia) سے ’مصر‘ (Egypt) تک کے علاقے میں روانہ ہوتی
تھی۔ geography اور
topography کے ماہرین ڈاک کے ساتھ دورانِ سفر تمام
علاقوں کے نقشے تیار کر کے لف کرتے اور تمام متعلقہ مقامات کی جغرافیائی، تاریخی
اور اِقتصادی معلومات بھی بترتیبِ ہجائی (alphabetic order) میں فراہم کرنے کا
اِہتمام کیا جاتا تھا۔
اوائل دورِ اسلام میں ’ابنِ حوقل‘ نے بھی معلوم کرۂ ارض کے نقشے
تیار کئے اور cartography کے فن
پر تحقیق کی۔ اپنے بنائے ہوئے نقشوں میں اُس نے زمین کو کروِی شکل (circular shape) میں
دِکھانے کے ساتھ ساتھ بحیرۂ رُوم
(mediterranian sea) کی حدُود کی صحیح شناخت بھی کروائی۔
اِسی طرح ’الادریسی‘ کا نقشہ جو شاہِ سسلی (1101ء۔ 1154ء) کے لئے آج سے 9 صدیاں
قبل تیار کیا گیا تھا، اُس میں دُنیائے عالم کے طوِیل ترین دریا ’دریائے نیل‘ (Nile) کے مصادر (sources) تک کی
خبر دی گئی ہے، جو اُس کے ڈیلٹا سے 6,670 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔
’یاقوت حموِی رحمۃ اللہ علیہ ‘ نے ’معجمُ البلدان‘ کے نام سے
جغرافیہ پر اُس وقت کی سب سے بڑی معجم
(dictionary) مرتب کی، جس نے اہلِ دُنیا کو دُنیا کا علم
فراہم کیا۔ اِس کتاب میں اُنہوں نے دُنیا کے تمام بڑے شہروں اور قصبوں کی تفصیلات
حروفِ تہجی کی ترتیب
(alphabetic order) سے پیش کی ہیں۔
’خوارزمی‘ نے ’صورۃُ الارض‘ (Image of the Earth) کے نام سے ایسا
جغرافیائی مطالعہ اہلِ علم کو عطا کیا جو بعد ازاں جدید جغرافیہ کی بنیاد بنا۔
’حمدانی‘ (945ء) نے آج سے گیارہ سو سال قبل چوتھی صدی ہجری میں
علمِ جغرافیہ میں اِنتہائی گرانقدر معلومات کا اِضافہ کیا۔
نامور مغربی مؤرِخ
Prof. Hitti نے اِن مسلمان ماہرینِ فن کی علمی خدمات کے
اِعتراف میں لکھا ہے کہ :
"The
bulk of this scientific material, whether astronomical, astrological or
geographical, penetrated the west through Spanish and Sicilian channels."
(History
of the Arabs, pp.383-387)
ترجمہ : ’’اُس سائنسی مواد کا زیادہ تر حصہ۔۔۔ خواہ وہ ’علمِ
فلکیات‘ (اَجرامِ سماوِی کا علم) کے مطالعہ پر مبنی ہو یا ’علم نجوم‘ (پیش بینی)
کے مطالعہ پر یا ’علم جغرافیہ‘ پر مبنی ہو۔۔۔ اندلس
(Spain) اور (اٹلی کے جنوبی ساحل پر واقع جزیرے) سسلی (Sicily) کے ذریعے
عالمِ مغرب میں داخل ہوا‘‘۔
علمِ جغرافیہ (geography) میں قرونِ وُسطیٰ کے مسلمان اِس قدر مشّاق تھے کہ اُن کا فن
عالمی شہرت اِختیار کر گیا تھا۔ چنانچہ 1331ء میں چین (China) کا سرکاری نقشہ (official map) بھی
مسلمان جغرافیہ دانوں نے ہی تیار کیا تھا۔
(Islamic
Culture, 8 : 514, Oct.1934)
وہ ہزارہا اِسلامی سکے جو جزیرہ نمائے سکینڈے نیویا (Scandinavia)، فن لینڈ
(Finland)،
کازن (Kazan) اور رُوس (Russia) کے دِیگر دُور دراز مقامات کی کھدائیوں سے دریافت ہوئے ہیں،
مسلمانوں کے اوائلِ اسلام میں کئے جانے والے تجارتی سفروں اور عالمی سرگرمیوں کی
خبر دیتے ہیں۔ Vasco de Gama کے پائلٹ ابنِ ماجد نے مسلمانوں میں اُس دَور میں قطب نما (compass) کے
اِستعمال کی خبر دی ہے۔ اِس فن کی بہت سی جدید اِصطلاحات میں بھی قرونِ وُسطیٰ کے
عرب مسلمان سائنسدانوں کی باقیات ملتی ہیں۔ حتیٰ کہ arsenal, admiral, cable, monsoon اور tariff وغیرہ جیسے
بے شمار عربیُ الاصل اَلفاظ و اِصطلاحات آج کی جدید دُنیا میں بھی متداوَل ہیں، جس
سے جدید مغربی کلچر پر مسلم علم و ثقافت کے اَثرات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صحرائے عرب کے اَن پڑھ باسی جن کے
ہاں پڑھنا لکھنا بھی عیب تصوّر ہوتا تھا، جن کی بدوِی زندگی میں صدیوں تک علمی و
فکری ترقی کے ظاہراً کوئی اِمکانات دکھائی نہ دیتے تھے اور ’فتوحُ البلدان‘ میں
’بلاذری‘ کی رِوایت کے مطابق جس قوم کی شرحِ خواندگی کا یہ عالم تھا کہ مکہ شہر کے
گرد و نواح میں آباد لاکھوں کی آبادی میں کل 10 سے 15 اَفراد ایسے تھے جو سادہ حد
تک لکھ پڑھ سکتے تھے، اُن کے علاوہ کسی کو اپنا نام تک لکھنا نہیں آتا تھا۔ وہ قوم
تعلیمی پسماندگی کی اُس حالت سے اُٹھ کر صرف ایک ہی صدی کے بعد علم و فن، تہذیب و
ثقافت اور سائنس و ٹیکنالوجی کے آسمان پر ستاروں کی طرح چمکنے لگی اور پوری
دُنیائے تاریک میں تہذیب و ثقافت اور علوم و فنون کی روشنی پھیلانے لگی۔ آخر اس
محیرالعقول علمی و فکری اور سائنسی و ثقافتی اِنقلاب کا سبب کیا تھا؟ کیا یہ عدیمُ
المثال اِنقلاب صرف اور صرف حضور نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیضانِ سیرت
اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے دی گئی اِسلام کی آفاقی تعلیمات کا
نتیجہ نہیں تھا جس نے اَن پڑھ صحرا نشینوں کو ہزارہا علوم و فنون کا بانی اور جدید
تہذیب و ثقافت کا مؤسس بنا دیا؟ یہ وہ سوال ہے جس نے مغربی مفکرین اور مؤرِخین کو
بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اُن کے ذِہنوں میں بھی یہی سوال اُٹھا ہے اور بعضوں نے
اُس کا صحیح جواب تلاش کر لیا ہے اور بعض ابھی تک متذبذب ہیں۔
اِسلامی سائنس اور مستشرقین کے اِعترافات
یہ ایک حقیقت ہے کہ دُنیائے علم و ثقافت میں عرب مسلمانوں کی یہ
حیرت انگیز ترقی اِسلام کی آفاقی تعلیمات ہی کی بدولت ممکن ہوئی اور جب تک مسلمان
بحیثیتِ قوم قرآن و سنت کی فطری تعلیمات سے متمسّک رہے رُوحانی بلندی کے ساتھ ساتھ
مادّی ترقی کی بھی اَوجِ ثریا پر فائز رہے اور جونہی اُنہوں نے لغزش کی اور
اِسلامی تعلیمات سے اِعراض کا رستہ اپنایا قعرِ مذلّت میں جا گرے۔
ایک غیر مسلم مؤرّخ نے اِسی حقیقت کو یوں بیان کیا ہے :
The
coming of Islam six hundred years after Christ, was the new, powerful impulse.
It started as a local event, uncertain in its outcome; but once Muhammad
conquered Makkah in 630 AD, it took the southern world by storm. In a hundred
years, Islam conquered Alexandria, established a fabulous city of learning in
Baghdad and thrust its frontier to the east beyond Isfahan in Persia. By 730 AD
the Muslim Empire reached from Spain and Southern France to the borders of
China and India. An empire of spectacular strength and grace while Europe
lapsed into the Dark Age۔۔۔ Muhammad
had been firm that Islam was not to be a religion of miracles, it became in
intellectual content a pattern of contemplation and analysis.
(J
Bronowski, The Ascent of Man, London 1973, pp.165-166)
ترجمہ : ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے چھ سو برس بعد اِسلام کا ظہور
ایک نئی توانا تحریک کے طور پر ہوا۔ اُس کا آغاز ایک مقامی حیثیت سے ہوا، اور شروع
میں نتائج کے اِعتبار سے صورتِ حال غیر یقینی تھی، مگر نبئ اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم 630ء میں جونہی فاتح بن کر مکہ میں داخل ہوئے تو دُنیا کے جنوبی حصہ میں
حیرت انگیز تبدیلی واقع ہوئی۔ ایک صدی کے اندر ’اسکندریہ‘ فتح ہوا، ’بغداد‘ اِسلامی
علم و فضل کا شاندار مرکز بنا اور اِسلامی حدوں کی وُسعت مشرقی اِیران کے شہر
’اِصفہان‘ سے آگے نکل گئی۔ 730ء تک اِسلامی سلطنت ’اندلس‘ اور ’جنوبی فرانس‘ کو
سمیٹتی ہوئی ’چین‘ اور ’ہندوستان‘ کی سرحدوں تک جا پہنچی۔ طاقت اور وقار کی اِس
اِمتیازی شان کے ساتھ جہاں مسلم سلطنت اپنے عروج پر تھی وہاں یورپ اُس وقت پستی
اور تنزّل کے تاریک دَور سے گزر رہا تھا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
اِسلام کو معجزات کے محدُود دائرہ میں رکھنے کی بجائے اُسے غور و فکر اور تجزیہ کی
نمایاں عقلی و فکری چھاپ عطا کی۔
اِسی طرح Robert L. Gulick نے بیان کیا ہے
:
It
should be borne in mind, however, that these aphorisms (maxims found in
ahadith) have been widely accepted as authentic and it cannot be doubted that
they have exerted a wide and salutary influence. The words attributed to Muhammad
must assuredly have stimulated and encouraged the great thinkers of the Golden
Age of Islamic civilisation.
(Muhammad,
The Educator)
ترجمہ : ’’اِس اَمر کو بخوبی ذِہن میں رکھنا چاہئے کہ ان اَحادیث
کو اِنتہائی مستند حیثیت حاصل رہی ہے اور نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُن
اِرشادات کا بہت مفید اور گہرا اَثر مرتب ہوا ہے۔ اُن اَحادیث نے اِسلامی تہذیب کے
سنہری دَور کے عظیم مفکرین پر نہایت صحتمند اور رہنما اَثر ڈالا ہے‘‘۔
پروفیسر Robert علم اور حصولِ علم کی اہمیت و فضیلت پر مبنی آیات و اَحادیث کے
ذِکر کے بعد مزید لکھتا ہے :
These
statements must not be construed as idle and useless words. The results have
been very substantial. The strength of Islamic science was its devotion to
practical matters rather than to the vague notions of the Byzantine Greeks.
(Muhammad,
The Educator)
’’Robert
L. Gulick کہتا ہے کہ (اِسلام کے) اُن اَقوال کو بے
فائدہ اور بے مقصد نہیں سمجھنا چاہئے، کیونکہ اُن پر عمل کرنے سے ٹھوس نتائج مرتب
ہوئے ہیں۔ اِسلامی سائنس کی اصل طاقت اِس اَمر میں مضمر ہے کہ یہ بازنطینی یونانی
واہموں کے برعکس تجرباتی اُمور پر زیادہ توجہ مرکوز کرتی ہے‘‘۔
اِس موضوع پر مغرب کے نامور مؤرِخ اور محقق
Robert Briffault کا تجزیہ ملاحظہ ہو۔ وہ لکھتا ہے :
It
is highly probable that but for the Arabs, modern European civilisation never
have assumed that۔۔۔ character which has enabled it to
transcend all previous phases of evolution. For although there is not a single
aspect of European growth in which the decisive influence of Islamic culture is
not traceable, nowhere is it so clear and momentous as in the genesis of that
power which constitutes the paramount distinctive force of the modern world and
the supreme source of its victory, natural science and the scientific spirit.
What we call science arose in Europe as a result of a new spirit of enquiry, of
new methods of investigation, experiment, observation and measurement of the
development of mathematics in a form unknown to the Greeks. That spirit and those
methods were introduced into the European world by the Arabs.
(The
Making of Humanity, pp.190-191)
رابرٹ بریفالٹ نے کہا ہے کہ اِس بات کا غالب اِمکان ہے کہ عرب
مشاہیر سے خوشہ چینی کئے بغیر جدید یورپی تہذیب دورِ حاضر کا وہ اِرتقائی نقطۂ
عروج کبھی حاصل نہیں کر سکتی تھی جس پر وہ آج فائز ہے۔ یوں تو یورپی فکری نشوونما
کے ہر شعبے میں اِسلامی ثقافت کا اثر نمایاں ہے لیکن سب سے نمایاں اثر یورپی تہذیب
کے اُس مقتدِر شعبے میں ہے جسے ہم تسخیرِ فطرت اور سائنسی وِجدان کا نام دیتے ہیں۔
یورپ کی سائنسی ترقی کو ہم جن عوامل کی وجہ سے پہچانتے ہیں وہ ’جستجو‘، ’تحقیق‘،
’تحقیقی ضابطے‘، ’تجربات‘، ’مُشاہدات‘، ’پیمائش‘ اور ’حسابی مُوشگافیاں‘ ہیں۔ یہ
سب چیزیں یورپ کو معلوم تھیں اور نہ یونانیوں کو، یہ سارے تحقیقی اور فکری عوامل
عربوں کے حوالے سے یورپ میں متعارف ہوئے۔
یہ بات بڑی حوصلہ اَفزا ہے کہ مغربی مفکرین نے اِس حقیقت کو اِن
کھلے اَلفاظ میں تسلیم کیا ہے :
There
is no doubt that the Islamic sciences exerted a great influence on the rise of
European science; and in this Renaissance of knowledge in the west there was no
single influence, but diverse ones; the main influence was of course, from
Spain, then from Italy and Palestine through the crusaders, who had mixed with
Muslims and seen the effect of sciences in Muslim culture.
(Joseph
Schacht & C.E.Bosworth, The Legacy of Islam, pp.426-427)
ترجمہ : ’’اِس اَمر میں قطعی کوئی شبہ نہیں کہ یورپ کے سائنسی فکر
پر اِسلامی سائنسی فکر کا گہرا اَثر مرتب ہوا۔ مغرب کی اِس علمی نشاۃِ ثانیہ پر
دِیگر کئی اَثرات بھی مرتب ہوئے۔ مگر بنیادی طور پر سب سے گہرا اَثر اندلس (Spain) سے آیا، پھر اٹلی اور فلسطین کی
جانب سے اَثرات مرتب ہوئے کیونکہ صلیبی جنگوں نے مغربی ممالک کے لوگوں کو فلسطینی
مسلم ثقافت اور سائنسی اُسلوب سے رُوشناس کرایا‘‘۔
ایک اور یورپی محقق نے اِس اَمر کی تصریح اِن اَلفاظ میں کی ہے :
Islam,
impinging culturally upon adjacent Christian countries, was the virtual creator
of the Renaissance in Europe.
(Stanwood
Cobb, Islam's Contribution to World Culture)
Stanwood
Cobb نے اپنی درج بالا کتاب میں یہاں تک کہا ہے کہ یورپ
کی نشاۃِ ثانیہ حتمی طور پر اِسلام کا مرہونِ منت ہے۔
اِس اِعترافِ حقیقت کے ساتھ ساتھ یورپی محققین نے براہِ راست اِس
سوال پر بھی توجہ کی ہے کہ وہ اِنقلاب کس چیز کے زیرِاثر آیا اور اُس کا محرّک کیا
تھا؟
Robert
L. Gulick نے درج ذیل اَلفاظ میں اِس حقیقت کا برملا
اِظہار کیا ہے :
That
important contributions to world intellectual progress were made by the Arabs
is not open to question. But were these development the result of the influence
of Muhammad?
(Muhammad,
The Educator)
ترجمہ : ’’یہ ایک مصدّقہ حقیقت ہے کہ دُنیا کی شعوری ترقی میں
عربوں نے نہایت اہم کردار اَدا کیا، مگر کیا یہ ساری ترقی حضرت محمد صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے اَثر کا نتیجہ نہ تھی‘‘۔
اُس نے ’بریفالٹ‘ کے اِس نقطۂ نظر کو ردّ کر دیا ہے کہ عرب
سائنسدانوں کا مذہب سے کوئی خاص لگاؤ نہیں تھا اور یہ تمام ترقی عرب علماء اور
سائنسدانوں کی اپنی محنت تھی۔ اُس کے نزدیک اِس تمام ترقی کی بنیاد صرف اور صرف
دینِ اِسلام اور سیرتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھی، جس کے ذرِیعے عرب
مسلمان اور سائنسدان علوم و فنون اور تحقیق و جستجوکی شاہراہ پر گامزن ہو گئے تھے۔
Reverend
George Bush نے بڑی صراحت کے ساتھ لکھا ہے :
No
revolution in history, if we accept that affected by the religion of the
Gospel, has introduced greater changes into the state of the civilised world
than that which has grown out of the rise, progress and permanence of
Muhammadanism.
(The
Life of Muhammad)
ترجمہ : ’’اِلہامی کتابوں کے حوالہ سے کوئی بھی تاریخی اِنقلاب
اِتنے ہمہ گیر اَثرات کا حامل نہیں جس قدر پیغمبرِ اسلام کا لایا ہوا اِنقلاب جسے
اُنہوں نے پائیدار بنیادوں سے اُٹھایا اور بتدرِیج اُستوار کیا‘‘۔
No comments:
Post a Comment